ڈاکٹر گھوش ایک عجیب و غریب آدمی تھے۔ایک بار انھوں نے اپنے چار معزز دوستوں کو اپنے تجرباگاہ میں ملنے کے لیے بلایا۔ ان میں سے تین اصحاب اتنے کبرسن تھے کہ ان کی داڑھیاں بھی سفید ہو گئی تھیں ان کے نام تھے بابو دیارام، ٹھاکر وکرم سنگھ اور لالہ کروڑی مل۔ چوتھی ایک بیوہ تھیں جن کا نام مسماۃ چنچل کنور تھا۔ بڑھاپے نے ان کے جسم پر جھریاں ڈال دی تھیں۔ یہ چاروں اشخاص بہت ملول محزون رہا کرتےتھے ۔ ان کی زندگیاں تلخ ہوگئی تھیں اور سب سے بڑا ستم یہی تھا کہ وہ ابھی تک بقید حیات تھے۔

لالہ کروڑی مل شباب میں ایک متمول تاجر تھے۔ مگر انھوں نے اپنی ساری دولت سٹوں میں اڑا دی تھی اور اب صرف مہذب گداگری پر گذران کرتے تھے۔ ٹھاکر وکرم سنگھ عیش و طرب کے بندے تھے۔ انھوں نے اپنی دولت ہی نہیں اپنی صحت بھی ہوسں رانیون پر قربان کردی تھی اور اب ان کا جسم معتدد امراض کا مامن بنا ہوا تھا۔ وہ بہت پریشان اور افسردہ خاطر ہا کرتے تھے۔ بابو دیارام کسی زمانہ میں وکیل تھے اور قومی تحریکوں میں بھی کچھ حصہ لیا تھا مگر کسی نہ کسی وجہ سے وہ بدنام ہو گئے تھے اور اب کوئی اُن کے قریب نہ پھٹکتا تھا۔ گوشہ گمنامی میں پڑے دن کاٹ رہے تھے۔ رہیں مسماۃ چنچل کنور کسی زمانہ میں ان کے حسن کا شہرہ تھا۔ بہت عرصہ سے وہ متبرک مقامات کی زیارت کرنے میں معروف تھیں – شرفاء شہریہاں تک کے اُن کے عزیز رشتہ دار بھی اُن سے محترز رہتے تھے۔ کروڑی مل، دیارام،وکرم سنگھ تینوں حضرات کسی زمانے میں ان مسماہ کے عشاق میں تھے۔ یہاں تک کہ ایک بار باہمی رقابت کے باعث اُن میں خون خرابہ کی نوبت بھی آچکی تھی مگر اب وہ پچھلی با تین خواب و خیال ہو گئی تھی ۔ انکی یاد بھی دلفگار ہو گئی تھی۔

ڈاکٹر گھوش اُن آدمیوں کو بیٹھنے کا اشارہ کر کے بولے۔ دوستو ! آپکو علم ہے کہ میں اپنا وقت چھوٹے موٹے تجربات کرنے میں صرف کیا کرتا ہوں۔ آج مجھے ایک تجربہ میں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ اگر روایتوں پر اعتبار کیا جائے تو ڈاکٹر گھوش کی لیبوریٹری ایک عجبوبہ چیز تھی۔ کمره تاریک پرانی وضع کا تھا۔ مکڑیوں کے جالے کھڑکیوں پر پردہ کا کام رہے تھے اور فرش پر برسوں کی گرد جمی تھی۔ دیواروں سے ملی ہوئی کئی ساکھو کی الماریاں تھیں ان میں مجلد کتابیں چنی ہوئی تھیں بیچ کی الماری میں ’’بھیرو‘‘ کی ایک مورت رکھی ہوئی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ مشکلات میں ڈاکٹر صاحب اسی مورت سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ کمرے کے سب سے اندھیرے گوشے میں ایک اونچی پتلی الماری تھی۔ اُس میں سے ایک انسان کا استخوانی ڈھانچہ کچھ کچھ نظر آتا تھا۔ اسی کے قریب دو الماریوں کے بیچ میں ایک دھندلا سا آئینہ رکھا ہوا تھا جس کا سنہری جوکھٹا میلا ہو رہاتھا۔ کہا جاتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے دست شفا سے مرے ہوئے مریضوں کی روحیں اسی آئینہ میں رہتی تھیں اور جب کبھی وہ آئینہ کی طرف دیکھتے تھے تو وہ سب کی سب ان کی طرف گھورنے لگتی تھیں۔ کمرے کے دوسری طرف ایک حسینہ کی قد آدم تصویر تھی مگر مرور ایام سے چہرے اور کپڑے کا رنگ اُڑ گیا تھا۔ پچاس برس کا عرصہ ہوا ڈاکٹر صاحب نے اسی حسینہ سے شادی کرنے کی تجویز کی تھی مگر شادی کے چند روز قبل وہ بیمار پڑی اور اپنے طالب ڈاکٹر کی دوا کھا کر اس دنیا سے چل بسی تھی۔ تجربہ گاہ کی سب سے عجیب چیز کا ذکر کرنا ابھی باقی ہے۔ یہ ایک سیاہ جلد کی ضخیم کتاب تھی۔ اس کتاب کا نام کسی کو نہ معلوم تھا لیکن لوگ جانتے تھے کہ یہ جادو کی کتا ب ہے۔ ایک بار خادم نے گرد جھاڑنے کے لیے اس کتاب کو اٹھایا تھا ۔ کتاب کے اُٹھاتے ہی الماری میں رکھا ہوا استخوانی ڈھانچہ کانپ اٹھا۔ حسینہ کی تصویر ایک قدم آگے بڑھ گئی اور صدہا خوفناک صورتیں آئینہ میں جھانکنے لگیں۔ اتنا ہی نہیں۔ بھیرو کی مورت کے تیور بدل گئے اور اسکے منھ سے ” بس کرو بس کرو” کی آواز نکلنے لگی تھی۔

 ڈاکٹر گھوش کی زبان سے تحربہ کا ذکر سن کر ان کے چاروں دوستوں نے سمجھا کہ یا تو ہمیں ہوا سے خالی  شیشہ کی نلی میں کسی چوہےکی موت کا تماشہ دکھایا جائے گا یا خورد میں سے مکڑی کے جالے کا ملاحظہ کرنا ہو گا ۔ اسی قسم کی اور کوئی دور از کار بے تکی بات ہوگی۔کیوں کہ کا ایسے ہی تجربات کے مشاہدے کے لیے ڈاکٹر صاحب پہلے بھی بیسیوں بار اپنے دوستوں کو دق کر چکے تھے ۔ اُنھیں اس مجوزہ تجربہ سےکچھ زیادہ شوق نہ پیدا ہوا مگر ڈاکٹر صاحب ان کے جواب کا انتظار کیے بغیر اٹھ کھڑے ہوئے اور لنگڑاتے ہوے کمرے کے دوسرے گوشہ سے وہی ضخیم کتاب اٹھا لائے جو عرف و عام میں جادو کی کتاب مشہور تھی۔ انھوں نے اس کتاب کو کھولا اور اوراق میں سے ایک گلاب کا پھول نکالا جو کبھی سرخ ہو گا پر اس وقت مٹیالا ہو رہا تھا۔ اس کی پنکھڑیاں بھی ایسے خشک ہو گئی تھیں گویا چھوتے ہی چور چور ہو جائیں گی۔

 ڈاکٹر صاحب ٹھنڈی سانس لے کر آہستہ سے بولے۔ آج پچپن سال ہوئے یہ گلاب کا پھول جواب بالکل مرجھایا ہوا ہے اور چھونے سے چور چور ہوا جاتا ہے سرخ اور شگفتہ تھا۔ یہ اس حسینہ کا تحفہ تھا جس کی تصویر سامنے لٹک رہی ہے اور میں اسے شادی کے دن اپنے کپڑوں میں لگانا چاہتاتھا۔ ان اوراق میں یہ پھول پچپن سال تک دفن رہا ہے۔ کیا یہ نصف صدی کا پرانا پھول پھر ہرا ہو سکتا ہے مسماۃ چنچل کنور نے بیدلی سے سر ہلا کر کہا ’’یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی پوچھے کہ کسی بوڑھی عورت کا پر شکن چہرہ پھر چکنا ہوسکتا ہے‘‘۔

ڈاکٹر گھوش نے فرمایا ’’اچھا دیکھو‘‘۔

یہ کہہ کر انھوں نے میز پر رکھے ہوئے مٹکے کا ڈھکنا اٹھایا اور اس مرجھائے ہوئے پھول کو پانی مین ڈال یا جو اس میں بھرا ہوا تھا۔ پہلے کچھ دیر تک تو پھول پانی پر تیرتا رہا اس پر پانی کا کچھ اثر نہ ہوا۔ لیکن ایک ہی لمحہ میں اس حیرت خیز تغیر نظر آنے لگا۔ چپٹی اور سوکھی ہوئی پنکھڑیاں ہلیں اور ان کا رنگ آہستہ آہستہ سرخ ہونے لگا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پھول ایک گہری نیند سے جاگ رہا ہے ۔پتلا ڈنٹھل اور پتیاں ہری ہو گئیں اور دیکھتے دیکھتے وہ پنجاہ سالہ پھول بالکل تازہ نو شگفتہ معلوم ہونے لگا۔ یہ ابھی اچھی طرح کھلا نہ تھا۔ بیچ کی کچھ پنکھڑیاں لپٹی ہوئی تھیں۔ ان پر شبنم کی دو بوندیں بھی چمک رہی تھیں۔ ڈاکٹر کے دوستوں نے لا پروائی سے کہا ’’تماشا تو بہت ا چھا ہے لیکن بتلائیے یہ ہوا کیونکر؟‘‘ ان لوگوں نے بازی گروں کے اس سے بھی کہیں عجیب شعبدے دیکھے تھے۔

ڈاکٹر گھوش بولے ’’کیا آپ لوگوں نے ظلمات کا نام کبھی نہیں سنا؟‘‘

 دیا رام ۔ سنا ضرور ہے مگر وہاں کا پانی کسی کو ملا کب؟

ڈاکٹر گھوش۔ اس لیے نہیں ملا کر کسی نے اس کی مناسب تلاش نہیں کی۔ اب تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ظلمات میں آب حیات کا ایک چشمہ ہے اس کے کنارے بڑے بڑے درخت ہیں جو کئی صدیوں کے پرانے ہونے پر بھی آج تک ہرے بھرے ہیں۔ مجھے ان انکشافوں کا دلدادہ سمجھ کر میرے ایک دوست نے تھوڑا سا پانی میرے پاس بھیجا ہے ۔ وہ اس پیالہ میں بھرا ہوا ہے۔

1 thought on “آب حیات

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *