ابو بکر محمد بن سیرین۔ ان کا شمارکبار تابعین میں ہے۔ اس وقت تک ہم نے جن لوگوں کے حالات بیان کیے ہیں اُن میں سے اکثروں نے اسلامی عہد قدیم کے آخری دور میں ناموری حاصل کی تھی اور فضل و کمال کے پھریرے اُڑاۓ تھے۔ ابن سیرین ایسے زمانے میں تھے جو خاص صحابہ کا زمانہ تھا۔ اُن کے عہد تک فلسفہ اور علم و حکمت کی کتابوں کا ترجمہ عربی زبان میں نہیں ہوا تھا۔ لہذا اس عہد کے لوگوں کے لیے باعث ناموری صرف علوم دینی اور خصوص حدیث رسول اللہ (علیہ التحیۃ والثنا) یا ذاتی زہد واتقا ہو سکتے ہیں۔ مجرد اس حیثیت سے دیکھا جائے تو اُس دور میں کثرت سے ایسے ائمہ اور مقتدایان عصر مل جائیں گے جن کو ابن سیرین کے برابر بلکہ ان سے زیادہ شہرت و عظمت حاصل ہو گئی۔ ابن سیرین نے ایک جدید فن میں کمال حاصل کیا تھا جس کی وجہ سے ان کی دقت نظر، نازک خیالی، اور بے خطا اجتہادات قیاسی کا پتہ لگ سکتا ہے۔ خواب کی تعبیر کو اسلام نے جائز بلکہ سچا مان لیا ہے۔ ابن سیرین نے اس امر خاص میں ایسے اعلی جوہر کمالی دکھائے کہ زمانے کو آج تک حیرت ہے۔ خوابوں کی تعبیر میں انہوں نے جو احکام لگائے تھے وہ زمانے کو ہمیشہ یاد رہیں گے۔ اور ان کے نام کو اسلامی دنیا میں سب سے زیادہ عظمت کے مقام پر ثابت کریں گے۔ ان کا تعبیر نامہ آج دنیا میں مروج اور متداول ہے جو ثابت کرتا ہے کہ اُن بزرگ کی اجتہادی قوت اور ان کے سچے قیاسات کس قدر حیرت انگیز صحت دماغی کی خبر دے رہے ہیں۔ ’’معبر‘‘ کا لفظ ان کے نام کا ایک جزو لاینفک ہو گیا جو ہمیشہ یاد رہے گا۔ اور کبھی نہ بھولے گا۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عہد معدلت مہد میں مثنٰی بن حارثہ شیبانی نے ایران پر فوج کشی کی۔ سلاطین عجم کی قسمت سے ناکامی اور تباہی کے آثار نمایاں ہوئے۔ اور اہل عرب کے گھوڑے میسوپوٹامیہ (عراق عرب) کے میدانوں میں اپنی جولانیاں دکھانے لگے۔ چند روز کے بعد جب ایرانیوں نے زیادہ قوت کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہا تو حضرت صدیق نے سیف اللہ خالد بن ولید کو مثنٰی کی کمک پر روانہ کیا۔ اگرچہ خالد اُسی وقت مسلیمہ کذاب کی فوجوں کو منتشر کر کے آئے تھے اور ہنوز دم لینے کی مہلت نہ ملی تھی کہ بحکم جناب صدیق اُنہیں ایران کیطرف روانہ ہونا پڑا۔ انؔبار اور خؔیرہ کی فتح کے بعد جب عؔین التمر فتح کیا گیا تو بہت سے لوگ مسلمانوں کے ہاتھ میں گرفتار ہوئے جن میں سؔیرین بھی تھا۔ یہ تمام اسیر عساکر اسلامیہ میں تقسیم ہوئے۔ تو سیرین انس بن مالک رضی اللہ کو ملا۔ انس کو جب معلوم ہوا کہ میرا غلام سیرین بہت بڑا ہنرمند شخص ہے اور اپنی ذاتی لیاقت سے بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے تو انہوں نے اسے اس مضمون کا ایک اقرار نامہ لکھ دیا کہ اگر تم اپنے پیشہ سے حاصل کر کے پورے بیس ہزار درہم مجھے ادا کر دو گے تو آزاد ہو جاؤ گے۔ سیرین نے بڑی مشقتوں سے مختلف اقساط میں زر معلومہ کو ادا کر دیا، اور آزاد ہو گیا۔ بعض مورخوں کا بیان ہے کہ سؔرین اؔبن سیرین کی ماں کا نام ہے۔ اگر صحیح ہو تو غالباً یہ سرین لفظ شیرین کا معرب ہے جو اکثر ایرانیہ عورتوں کا نام ہوتا ہے۔

لیکن ابن خلکان اس پچھلی روایت کی مخالفت میں بیان کرتا ہے کہ محمد بن سیرین کی ماں کا نام صفیہ تھا، جو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی لونڈی تھی۔ جس رات سے سیرین کا عقد صفیہ کے ساتھ ہوا ہے اس رات محفل نکاح میں سترہ غازیان بدر شریک تھے۔ جن میں سے ایک کی بھی موجودگی اس ایمانی دور میں نہایت ہی موجب برکت اور اہل محفل کے لیے باعث فخر و مباهات خیال کی جاتی تھی۔ انھیں غازیان بدر میں سے جو صفیٰہ اور سیرین کی محفل عقد میں شریک تھے ایک اُبّی بن کعب انصاری تھے جن کی عظمت و جلالت کو ہر مسلمان جانتا ہے۔ اُبّی بن کعب نے نکاح کے بعد دونوں دلہا دلہن کے لئے درگاہ حضرت رب العزت میں بہت کچھ دعائیں مانگی تھیں۔ علاوہ بریں جب صفیہ عروس بنائ گی تو اس زنانی صحبت میں تین امہات المومنین ازواج حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے بابرکت ہاتھوں سے صفیہ کی آراستگی کی اور اُس کو خوشبو وغیرہ لگا کے معطر کیا اور خیروبرکت کی دعائیں دیں۔

یہاں سے اندازہ کرنا چاہیے کہ مسلمانوں میں غلامی اگر تھی تو کیسی چیز تھی۔ اور غلاموں کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جاتا تھا۔ اس عہد میں دولتمندوں اور مالداروں کی شرکت کوئی با وقعت چیز نہیں خیال کیجاتی تھی۔ غازیان بدر کا اسلام میں ایسا رتبہ تھا کہ جب تک اُن میں سے ایک شخص بھی زندہ رہا تمام دنیاے اسلام کے لوگ اس کو اپنا افتخار سمجھتے رہے۔ ان میں سے کوئی شخص جہاں جاتا تھا آنکھوں پر بٹھایا جاتا تھا اور اس کے قدم لیے جاتے تھے۔ عورتوں میں امہات المومنین کی ایسی عظمت تھی کہ تمام اسلام کی عورتوں کا وہ ہمیشہ مرجع رہیں۔ پھر ایسے باوقعت لوگ لونڈیوں اور غلام کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں تو سمجھنا چاہیے کہ تمام مسلمان اُن کی کس درجہ قدر کرتے ہوں گے۔ ایک لونڈی کو اسی رسول برحق کی تین بیباں اپنے مبارک ہاتھوں سے زیور عروسی سے آراستہ کریں! سبحان اللہ۔ وہ لونڈی ہماری آزاد بیبیوں سے کرور درجہ اچھی ہے جس کو ایسے بابرکت ہاتھ آراستہ کریں۔ غلاموں کے ساتھ ایسے برتاؤ کی ایسی ایک مثال بھی شاید نہ یونان پیش کر سکے گا نہ روم اور نہ یورپ کوئی ایسا نمونہ دکھا سکتا ہے۔ بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ دین عیسوی کی تاریخ بھی ایسے فروتنی کے نظائر سے خالی ہے ۔ پھر کتنے بڑے تعجب کی بات ہے کہ ایسی غلامی پر آج اعتراض کیا جاتا ہے اور مسلمان ملزم ٹھہرائے جاتے ہیں۔

الغرض انھی بابرکت ہاتھوں اور انھیں مقبول دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ حضرت عثمان ذوالنورین کی خلافت میں اس عقد کا یہ نتیجہ ظاہر ہوا کہ ابن سیرین کا ایسا عمدہ محدث، معبر، فقیہ، عابد، زاہد، اور پرہیزگار پیدا ہوا۔ جس کا نام تاریخ کے صفحوں پر ہمیشہ فخر کے ساتھ لکھا رہے گا۔ اور جس کے نام کو اسلامی سوسائیٹیاں قیامت تک ادب سے زبان پر لائیں گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *