ابن سیرین جناب عثمان ذوالنورین کی خلافت کے دوسرے سال یعنی ہجرت سے پچیس برس بعد اُسی خوش نصیب دلہن صفیہ کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے۔ بچپن کا زمانہ صحابہ کی صحبت میں گذرا اور صحابیہ عورتوں کی مبارک گودوں اورپاک دامنوں میں پرورش پائی۔ ان کی ورع و اتقا کا پہلے ہی سے شہرہ ہو گیا تھا اور علما ئے زمانہ اسی وجہ سے ان کی نہایت قدر و منزلت کرتے تھے۔ حدیثیں انھیں اؔبوہریہ، عؔبدالله بن عمر، عؔبد اللہ بن ز عؔمران بن حصین، اؔنس بن مالک کے ایسے جلیل القدر اورسر برآورده صحابیوں سے حاصل ہوئیں تھیں۔ اور اُنھیں بزرگوں کی شاگردی پر انھیں ناز رہا۔ قؔتادہ بن دعامه ، خؔالد خذّاء، اؔبوایوب سختیانی کے ایسے نامور محدثین ابن سیرین کے شاگرد رشید ہیں۔
ابن سیرین اگر چہ بہت بڑے مشاہیر علما میں تھے۔ اورعقل نہیں قبول کرتی کہ اس عہد کی اسلامی خلافتین جو اہل فضل و تقوی کی انتہا سے زیادہ قدر دان تھیں ابن سیرین کی قدر نہ کرتی ہوں۔ لیکن صرف اُن کی اتقا اور پرهیزگاری کا یہ نتیجہ تھا کہ بیچارے دیگر اہل ورع علمائے اسلام کی طرح ذلیل پیشہ بزازی کرتے تھے۔ کپڑے بیچتے تھے، اور ا نھیں کے ذریعہ سے جو کچھ آمدنی ہوتی تھی اُس پر اپنی زندگی بسر کرتے تھے۔ قدیم علما و مشایخ کی عام سوانح عمریاں دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس عہد میں مقتدائی کوئی پیشہ نہیں تھا۔ جس طرح آج کل علما اور پیرزادے ہاتھ پاؤں توڑ کے بیکار بیٹھ رہتے ہیں! استفتا دستخط کرنے اور نماز روزے کی پابندی کرنے کی مزدوری معتقدوں اور مریدوں سے وصول کیا کرتے ہیں۔ اور گویا مقتدائی ایک پیشہ بن گیا ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اؔبن سیرین اورامام اعظم کے ایسے مقتدایان دہر جو اپنے ہی زمانے کے نہیں، ہر اسلامی دور کے سرتاج تھے کپڑا بیچ بیچ کے اپنی زندگی بسر کرتے رہے۔ شرمندہ ہونا چاہیے اُن لوگوں کو جو آج کل غریب جولاہوں کو ذلت کی نگاہ سے دیکھا کرتے ہیں۔
اسی پیشہ بزازی نے ابن سیرین کو ایک مرتبہ عجیب مصیبت میں مبتلا کر دیا تھا۔ مشہور ہے کہ ان کو کمالات علمی و تزکیہ باطنی کے ساتھ اللہ جل شانہ نے دولت حسن سے بھی مالا مال کر دیا تھا۔ اُنھوں نے نہایت دلفریب اور بے صبر کر دینے والی صورت پائی تھی۔ خصوص اُس زمانے میں جب کہ ان کا عنفوان شباب تھا اور حسن کی شعاعین چہرے کے رنگ اور خط و خال سے پھوٹ پھوٹ کر نکلی پڑتی تھیں۔ کہیں ان کی صورت پر کسی عورت کی نظر پڑ گئی۔ اور وہ فوراً ہزار جان سے عاشق ہو گئی۔ اپنی خواہش نفسانی کی اغراض پوری کرنے کے لیے اس نے یہ بہانہ کیا کہ کپڑا مول لینے کے غرض سے انھیں بلا بھیجا۔ اور بہت کچھ مال خریدنے کی اُنھیں مستحکم امید دلائی، ابن سیرین اپنی گٹھری لے کے پہونچے۔ اُن کو ایک عمدہ کمرے میں بٹھایا، اور خود نہایت عمدہ کپڑے پہن کے خو شبو سے معطر ہو کے اور نیا ؤ سنگھار کر کے سامنے نکل آئی۔ اور لگاوٹ بازیاں کرتے کرتے ہاتھا پائی کرنے لگی۔ اُنھوں نے اسکے سامنے زنا کی مذمتیں بیان کرنا شروع کیں اور خدا کا خوف دلانے لگے۔ لیکن وہ اس درجہ ازخودرفتہ ہو رہی تھی کہ یہ ہزار عذر و معذرت کرتے تھے وہ ایک نہ مانتی تھی۔ آخر جب اُن سے کوئی تدبیر نہ بن پڑی تو انھوں نے کہا ”مجھے پاخانہ جانے کی ضرورت ہے‘‘۔ ان کو پاخانہ کا دروازه بتا دیا گیا۔ بیت الخلا میں جا کے انھوں نے کچرا اور خدا جانے کیا کیا نجاست منھ پر اور تمام جسم پر ملی۔ اور اسی ہیئت کذائی سے اس کے سامنے نکل آئے۔ یہ حالت دیکھ کے اس کا جی ہٹ گیا۔ اور ایسی نفرت معلوم ہوئی کہ اُن کو نکلوا دیا۔ انھوں نے خدا کا شکرادا کیا اور اپنی گٹھری لے کے وہاں سے چلے آئے۔ گھر میں جا کے غسل کیا اور ساری داستان اپنی بی بی سے بیان کی۔ اس نیک بخت نے نہایت تعجب کیا ۔ اور ان کی خدا ترسی کی بڑی تعریف کی۔ اور کہا “خدا نے تم کو حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح اُس بدکار کے ہاتھ سے بچایا۔” بیشک اُن کی بی بی کا یہ کہنا اگر درست نہ تھا تو بھی خدا نے پورا کیا۔ یعنی حضرت یوسف صدیق کی دوسری فضیلت یعنی معجز نما تعبیر رویا کے کمالات بھی مرحمت فرمائے۔ جس طرح حضرت یوسف کی بنائی ہوئی تعبیریں حکمی ہوتی تھیں ویسے ہی اکثر خوابوں کی اُنھوں نے بھی حکمی تعبیر بیان کی اور ویسا ہی ظاہر ہوا۔
ابن سیرین نے جو احادیث روایت کی ہیں اور ان احادیث کو اسلام کی مقدس و محترم جماعت نے جس اطمینان و اعتماد کے ساتھ قبول کیا ہے اس کا حال ہمارے احباب کو کتب رجال کی طرف متوجہ ہونے سے بخوبی معلوم ہو سکتا ہے۔ کتب رجال کے صفحے بتائیں گے کہ عہد قدیم اسلام کے نامور مقتداؤں اور مسلم الثبوت ائمہ نے ان کے زہد و اتقا اور ان کی حقانیت و راست بازی پہ کیسے کیسے وزنی اور قیمتی ریویو کیے ہیں۔ اس مو قع پر ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ تعبیر رویا اور خواب کے نتائج بتانے میں اُن کے الہامی اجتہاد کیسے تھے۔ اور اُن میں قدرت نے کس بلا کی ذکاوت اور عقل صائب پیدا کر دی تھی کہ خواب کا حال سنتے ہی جو کچھ زبان سے کہ دیا کرتے تھے وہ پتھر کی لکیر ہو جاتی تھی۔