ان تعبیروں کے دیکھنے سے نہ صرف اس قدر یقین ہوتا ہے کہ انسان ابن سیرین کی تعبیر گوئی کا معترف ہو جائے۔ بلکہ وہ متحیر ہو جاتا ہے کہ انسان کو اللہ جل شانہ نے کیسے کیسے کمالات مرحمت فرمائے ہیں۔ اور خدا کی الہامی مدد اُس کے پاک بندوں کی زبان میں کیسا حکمی اثر پیدا کر دیا کرتی ہے۔

ابن سیرین میں اور حسن بصری میں بڑا ربط و ضبط تھا ایک زمانہ تک دونوں میں رشتہ محبت کو مضبوطی ہوتی گئی۔ مگر آخر خدا جانے کس بنا پر نہایت بےلطفی ہوگئی۔ ایسی بے لطفی کہ وہ سارا اگلا ربط و ضبط کیسا ملاقات چھوٹ گئی۔ یہ رنجش آخر تک رہی۔ چنانچہ جب حسن بصری نے انتقال فرمایا تو ابن سیرین اُن کے جنازے پر بھی نہیں گئے۔ مگر بعض مورخین کا بیان ہے کہ حسن بصری کے جنازہ پرنہ جانا ملال کی وجہ سے نہ تھا۔ بلکہ اُن دنوں ابن سیرین کو قرضہ کی علت میں والی بصرہ نے گرفتار کر لیا تھا۔ اور قید کی مجبوریوں میں تھے اور یہ قرضہ اُن کی وفات کے بعد اُن کے صاحبزادے عبداللہ نے ادا کیا۔

ابن طوف کہتے ہیں کہ جب انس بن مالک مشہور صحابی رسول اللہ صلعم کا دم واپسیں ہوا تو اُنھوں نے وصیت کی کہ ابن سیرین مجھے غسل دیں۔ اور وہی میرے جنازے کی نماز پڑھائیں. یہ وصیت کر کے اس جلیل القدر صحابی نے دنیا سے رحلت کی لیکن ابن سیرین گرفتار تھے۔ امیر بصرہ ان دنوں بنی اسد کا ایک شخص تھا۔ لوگ اس کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور انس بن مالک کی وصیت بیان کی۔ اس کے حکم اور اُس کی اجازت سے محمد بن سیرین کو قید سے اتنی آزادی ملی کہ جا کے انس رضی اللہ عنہ کی لاش کو غسل دیا، کفن اڑھایا، اور انس بن مالک کی نماز ان ہی کے محل میں جو محلہ طف میں تھا، پڑھائی۔ ان کاموں سے فراغت کر کے قبل اس کے کہ اپنے اہل وعیال کی صورت بھی دیکھ سکیں پھر اسی زندان بلا میں چلے گئے۔

ابن سیرین اور حسن بصری میں اگرچہ نزاع و اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ اور ظاہری ربط و ضبط کے اسباب مفقود ہو گئے تھے، لیکن باطنی کشش محبت شاید باقی تھی۔اس لیے کہ حسن کے انتقال کے بعد اؔبن سیرین زیادہ زندہ رہے۔ اُن کے مرنے کے پورے ایک سو دن کے بعد 110ھ میں انھوں نے بھی انتقال فرمایا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *