ان فتوحات کے بعد احمد شاہ کابل میں واپس آیا اور دوسرے سال شہر قائن کے حاکم میر عالم خان نے ناگہاں حملہ کر کے شاہ رخ کو پکڑ لیا۔ اور کمال بے رحمی سے اس کی آنکھیں نکلوا ڈالیں۔ احمد شاہ کو خبر ہوئی تو بلائے بے درمان کی طرف جا پہنچا۔ میر عالم خان کو شکست دے کر قتل کیا۔ اور اندھے شاہ رخ کو پھر تخت پر بٹھایا۔
اسی سال احمد شاہ کا ایران کی برسر عروج قاچاری قوت سے مقابلہ ہوا جس کا مرکز حکومت آذربائیجان تھا۔ یہ لڑائی شہر استرآباد میں ہوئی جس میں احمد شاہ کو شکست ہوئی۔ اور اس شکست کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ واپس آنے کے بعد پھر کبھی اس نے مغرب کی طرف قدم بڑھانے کی جرات نہیں کی۔ لیکن خراسان پوری طرح اس کے زیر حکومت تھا۔ اور اس کے بادشاہ ہونے کے پانچویں سال مشہد ہی میں پہلے پہل اس کا نام کا سکہ چلا۔
لاہور میں احمد شاہ کے واپس جانے کے کئی سال بعد 1169ھ (1755ء ) میں میر مانو مر گیا جسے وہاں کا والی مقرر کر گیا تھا۔ اس کے مرتے ہی اس کی حوصلہ مند بیوی مغلانی بیگم نے باغیانہ طور پر پنجاب کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اور اپنے انیس و ہمدم دوست آدینہ بیگ کے ساتھ حکومت کرنے لگی۔ ان دنوں دہلی کے سیاہ و سفید کا مالک وزیر غازی الدین تھا۔ اس نے یہ حالات سنے تو اس فکر میں ہوا کہ پنجاب کو پھر دہلی کی قلمرو میں شامل کرے۔ چنانچہ اس نے مغلانی بیگم کی بیٹی کو اپنی بیوی بنا لیا۔ پھر دونوں ماں بیٹیوں کو دہلی میں لے آیا۔ اور پنجاب کو با آسانی اپنے زیر فرمان کر لیا۔
ان واقعات کی احمد شاہ کو خبر ہوئی تو 1170ھ (1756ء) میں پھر تیسری بار ہندوستان کی طرف رخ کیا۔ آتے ہی آدینہ بیگ کو جو وہاں کا برائے نام والی بنا دیا گیا تھا نکال باہر کیا اور پنجاب کو زیر فرمان کر کے خود دہلی کی طرف بڑھا۔ بادشاہ اور وزیر دونوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ نجیب الدولہ فوراً جا کے احمد شاہ سے ملا اور اس کا دم بھرنے لگا۔ اور غرض احمد شاہ اس شان و شکوہ سے دہلی میں داخل ہوا کہ شہنشاہ عالمگیر ثانی اور وزیر دونوں اس کے جلوس میں تھے۔ احمد شاہ چالیس دن تک دہلی میں مقیم رہا۔ اور اس کی فتح کی یادگار کے طور پر دہلی میں اس کے نام کا سکہ چلایا گیا جس میں 1170ھ کا سنہ ڈالا گیا۔
اسی سلسلے میں اس کی فوج نے شہر متھرا کو بھی لوٹا۔ پھر کابل واپس جاتے وقت اس نے نجیب الدولہ کو سلطنت مغلیہ کا کارپرداز مقرر کیا۔ اور تمام اختیارات اس کے ہاتھ میں دے دیئے۔ اپنے بیٹے تیمور کے ساتھ عالمگیر ثانی کی بیٹی کی شادی کر دی۔ اور محمد شاہ کی ایک بیٹی کو خود اپنے عقد نکاح میں لیا۔ پھر تیمور کو نظام لاہور و ملتان یعنی سارے پنجاب کا حاکم بنا کے کابل گیا۔
اس کام کو اس نے تیمور کے ذمے کیا کہ آدینہ بیگ کو جس نے بغاوت میں سر اٹھا رکھا تھا پکڑ کے سزا دے۔ مگر تیمور میں احمد شاہ کی سی شجاعت و خوش تدبیری نہ تھی۔ اس کے افغانستان میں واپس جاتے ہی آدینہ بیگ نے اور زیادہ سر اٹھایا۔ سکھوں کے علاوہ مرہٹوں نے بھی آدینہ بیگ کی مدد کی جن کے بڑے بڑے گروہ پنجاب میں پہنچ گئے۔ اور ہر طرف پھیلنے لگے۔ آخر آدینہ بیگ نے 1173ھ (1759ء) میں شہر لاہور کو تیمور سے چھین لیا۔ ساتھ ہی سکھوں نے امرتسر پر قبضہ کر لیا اور یورش کر کے قدیم با رونق شہر سرہند کو لوٹ لیا۔ ادھر مرہٹوں نے اس قدر زور باندھا کے ملتان تک جا پہنچے۔ اور شہر اٹک پر حملہ آور ہوئے جو دریائے سندھ کے کنارے واقع تھا۔
احمد شاہ نے یہ حالات سنے تو چوتھے حملے کی تیاریاں کر دیں۔ اور 1174ھ (1760ء) میں پھر ہندوستان آیا۔ اور منازل سفر طے کر رہا تھا کہ دہلی میں غازی الدین خان نے شہنشاہ عالمگیر ثانی کو قتل کر ڈالا۔ اور اس کا بیٹا نو عمر شاہزادہ علی گوہر جو بعد کو تخت پر بیٹھ کر شاہ عالم بادشاہ مشہور ہوا، اپنی جان لے کر انگریزوں کے پاس بھاگ گیا۔ لہذا شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کا پوتا محی السنہ ابن کام بخش تخت پر بٹھا دیا گیا۔ اور شاہ جہاں ثانی اس کا شاہی لقب قرار پایا۔ وہ چند ہی مہینے نام کا بادشاہ رہا تھا کہ مرہٹوں نے اسی سال یعنی 1174ھ (1760ء) میں نرغہ کر کے دہلی پر قبضہ کر لیا۔ خوب لوٹا۔ خود اپنی ہندو شہنشاہی ہندوستان میں قائم کرنے کے درپے ہوئے۔ اور غالبا اس فکر میں تھے کہ دلی کو اپنے قبضہ میں رکھیں۔
احمد شاہ بولان گھاٹی سے نکل کے چلا تو شمال کے جانب بڑھا۔ ڈیرہ جات میں ہوتا ہوا پشاور میں پہنچا۔ اور وہاں سے معمولی سڑک اختیار کر کے لاہور ہوتا ہوا دہلی کی طرف چلا تو مرہٹوں نے بڑھ کر مقابلہ کیا۔ مگر شکست کھائی۔ بدحواس بھاگے اور احمد شاہ نے قدم بڑھا کر دہلی پر قبضہ کر لیا۔
اب کے اس کے یہاں آنے کا زیادہ تر مقصد یہ تھا کہ دہلی کی اسلامی شہنشاہی کو مرہٹوں کی دست برد سے بچائے۔ اور اسے مٹنے نہ دے۔ نجیب الدولہ وغیرہ نے اسے اصطلاح دی تھی کہ مرہٹے اسلام کے دشمن ہیں۔ اور اگر آپ نے مستعدی سے کام نہ لیا تو دولت مغلیہ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ لہذا وہ مرہٹوں کو شکست دے کر دہلی میں ٹھہرا اور کسی مغلیہ شہزادے کو تخت پر بٹھانے کا ارادہ کر رہا تھا کہ خبر آئی مرہٹوں کا بڑا زبردست لشکر دکھن سے آ گیا۔ اور وہ لوگ مقابلے کو تیار ہیں۔
احمد شاہ نے کوشش کی کہ مرہ