ٹوں کو اپنے قریب نہ آنے دے۔ مگر ان کا اس قدر زور تھا کہ برابر بڑھتے چلے آئے۔ آ کے پانی پت میں پڑاؤ ڈال دیا۔ اور احمد شاہ کی رسد روک دی۔ یہ دیکھ کر احمد شاہ کو اس مہم کی اہمیت نظر آئی۔ اور اس نے چند ہی روز کی کوشش میں اپنی رسد کا بہت اچھا انتظام کر لیا۔ اور خود مرہٹوں کی رسد ہر طرف سے روک دی۔
اس لڑائی نے اب نہایت نازک صورت اختیار کر لی۔ مرہٹوں کی مدد پر ان کے کل حکمران اور سردار پہنچ گئے۔ اور کہا جاتا ہے کہ تین لاکھ سے زیادہ فوج جمع ہو گئی۔ سدا شیو بھاؤ سب کا سردار اعظم تھا۔ اور سورج مل جاٹ بھی جاٹوں کا بہت بڑا لشکر لے کے اس کی کمک پر آ گیا۔
یہ حالت دیکھ کر تمام مسلمان سردار اور حکمران بھی احمد شاہ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے۔ احمد خان نبگش فرخ آباد سے، حافظ رحمت خان بریلی سے، دیگر خواتین برخوردار خان عبد الرحیم خان وغیرہ روہیل کھنڈ سے، نجیب الدولہ اپنا پورا لشکر لیکر نجیب آباد سے آ گئے۔ اور اودھ کے فرماں روا شجاع الدولہ، اگرچہ مرہٹوں سے چھیڑ کرنا نہیں پسند کرتے تھے، مگر وہ بھی شرما شرمی فیض آباد سے اپنا لشکر لے کر دہلی پہنچ گئے۔ اگرچہ ادھر بھی سب سرداروں کی فوجیں مل کر ایک بڑا لشکر مرتب ہو گیا تھا۔ مگر مرہٹوں کی تین لاکھ فوج کے سامنے اس کی کچھ ہستی نہ تھی۔ پھر احمد شاہ کے طرف کی 40 توپوں کے مقابلے میں مرہٹوں کے پاس دو سو توپوں کا زمین کو ہلا دینے والا توپ خانہ تھا۔ اور سب سے بڑی چیز یہ تھی کہ مرہٹوں کی طرف ابراہیم خان گاردی کا با ضابطہ لشکر تھا جس نے ڈوپلے کی شاگردی کر کے بلکل فرانسیسی اصول پر اپنا لشکر کو مرتب کیا تھا۔ ساری توپیں اسی کے چارج میں تھیں جن سے وہ سخت ترین آتش باری کر سکتا تھا۔
چند روز خفیف لڑائیاں ہوتی رہیں۔ یہاں تک کہ 6 جمادی الاخر 1174ھ کو مرہٹوں نے پوری فوج سے دھاوا کر دیا۔ اور پانی پت کی تیسری قیامت خیز اور ملکوں کی قسمتیں پلٹ دینے والی لڑائی چھڑ گئی۔ ابراہیم خان آ گے آ گے شرر باری کرتا ہوا اور اس کے با ضابطہ سپاہی بندوقوں کی باڑھیں مارتے ہوئے احمد شاہ کی فوج کے داہنے بازو پر جا پڑے۔ جہاں تمام خواتین روہیل کھنڈ کے لشکر دوش بدوش صفیں جمائے کھڑے تھے۔ ابراہیم خان کی آتش بازی کے ساتھ جب مرہٹہ لشکر بھی ادھر ہی ٹوٹ پڑا تو خواتین کے کل لشکروں کو شکست ہو گئی۔ شجاع الدولہ چند گھنٹہ پیشتر تک مرہٹوں سے ساز بار کرتے رہے تھے۔ ان کے لشکر نے اپنی جگہ سے جنبش بھی نہ کی نجیب الدولہ کی فوج بائیں طرف سب کے آخر میں تھی۔ مگر احمد شاہ کے ولایتی لشکر نے کمال شجاعت و جاں بازی سے توپوں کی مار اور مرہٹوں کے ریلے کو روک لیا۔ ساتھ ہی احمد شاہ نے جو فوج کے پیچھے ایک بلند ٹیکرے پر سے بیٹھا لڑائی کا رنگ دیکھ رہا تھا۔ ولایتی سواروں کے ایک رسالے کو حکم دیا کہ شجاع الدولہ کی فوج میں سے نکل کر حملہ کرے۔ بس یہی حملہ قیامت تھا۔ ملھار راؤ ہلکر کا لشکر بدحواس ہو کر اور گھبرا کے بھاگا۔ ساتھ ہی سارے مرہٹہ لشکر کا قدم اٹھ گیا۔ بھاؤ چاروں طرف سے گھر گیا۔ اور یہ دیکھ کر کہ، لشکر کی پوری شکست ہو گئی اور میں محصور ہوں، ہاتھی سے کود کر لڑتا ہوا مارا گیا۔
افغانیوں نے ہر طرف پندرہ، پندرہ اور بیس، بیس میل تک تعاقب کیا۔ غرض کہتے ہیں کہ دو لاکھ کے قریب مرہٹہ کھیت رہا۔ اور ان کے سرداروں میں سے کوئی نہ تھا جو زندہ بچ رہا ہو یا سخت زخمی نہ ہوا ہو۔ اور اسی سے شکست کے ساتھ مرہٹوں کی شمالی ہند میں اپنی سلطنت قائم کرنے کی امید ہمیشہ کے لیے خاک میں مل گئی۔
ہمارے جدید مورخین ہند اس لڑائی کو ہندو مسلمانوں کی مذہبی اور قومی لڑائی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ بالکل غلط ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ابراہیم خان گاردی، جس پر مرہٹوں کی اصلی قوت کا دارو مدار تھا، وہ اور اس کا لشکر ہندوؤں کے طرف سے میدان میں نہ آتا۔ اسی طرح شمالی ہند کے بہت سے ہندو سردار اور رؤسا احمد شاہ کے لشکر کے ساتھ ہر گز لڑائی میں حصہ نہ لیتے۔ دراصل یہ لڑائی شمال و جنوب کے لوگوں کی تھی۔ دکن کے ہندو مسلمان اس فکر میں تھے کہ اپنی شجاعت کا سکہ بٹھا کے بلندی ہند میں اپنی سلطنت قائم کر لیں۔ ادھر شمالی ہند سندھ کے ہندو و مسلمان چاہتے تھے کہ ہم کو دکن والوں کی غلامی نہ کرنا پڑے۔ اسی اتر دکھن کے جھگڑے نے یہ میدان کا کارزار گرم کیا۔
لیکن مسلمانوں کی قسمت ہی بگڑی ہوئی تھی۔ یہی اکیلی ایک فتح اسلامی سلطنت کے اگلے عروج کے تازہ کر دینے کے لیے کافی تھی۔ اگر احمد شاہ یہیں ٹھہر جاتا اور پرانے از کار رفتہ خاندان مغلیہ کا خاتمہ کر کے خود ہندوستان کا شہنشاہ بن جاتا تو نئے درانی خاندان شہنشاہی کا دور شروع ہو کر اسلامی سلطنت دہلی کی عمر دو چار صدیوں کے لیے بڑھا دیتا۔ مگر افسوس کہ وہ ہم پر حکومت کرنے کو نہیں بلکہ ہماری مدد کو آیا تھا۔ اور یہ نہ سمجھ سکا کہ ہم اس قابل بھی نہیں رہے تھے کہ کسی کی مدد ہماری اصلاح کر سکے اور سچ پوچھیے تو احمد شاہ درانی کے اسی حملے سے انگریزی حکومت کو اپنی سطوت قائم کرنے کا موقع مل گیا۔ کیونکہ اس لڑائی نے مرہٹوں کو ضعیف بلکہ تباہ کر دیا۔ جو اس تباہی سے پیشتر انگریزی قوت کی پوری مقاومت کر سکتے تھے۔
اس فتح کی یادگار میں نئے سکے دہلی۔ بریلی۔ مرادآباد۔ آؤنلہ اور سرہند میں جاری کیے گئے۔ اور احمد شاہ کابل واپس گیا۔ مگر اس کے جاتے ہی پنجاب میں سکھوں نے بغاوت کر دی۔ اور امرتسر کے قریب شہر حنڈیالہ کا محاصرہ کر لیا۔ اور 1175ھ (1762ء) میں اسے پھر ہندوستان آنا پڑا۔ اس بارہویں صدی ہجری کے محمود غزنوی کا یہ پانچواں حملہ عجب شان اور بہادرانہ آن بان کا تھا۔
بغاوت کی خبر سنتے ہی سوتے، سوتے اچانک چونکا۔ اٹھتے ہی سوار ون کے ایک رسالے کو ساتھ لیا۔ اور اسی وقت چل کھڑا ہوا۔ اور ایسی تیزی سے آیا کہ ہمراہی بھی ساتھ نہ دے سکے۔ جس وقت حنڈیالہ میں پہنچا ہے فقط دس بارہ آدمی ساتھ تھے۔ مگر ہندوستان میں اس کی ایسی دھاک بندھی ہوئی تھی، کہ جیسے ہی لوگوں میں مشہور ہوا، کہ احمد شاہ آگیا، تمام سکھ محاصرہ چھوڑ، چھوڑ کے بد حواس بھاگے اور اس نے تھوڑا بہت لشکر جو فراہم ہو سکا، لے کر ان کے پیچھے گھوڑے اٹھا دیے۔ لدھیانہ کے دکھن طرف گوجر والی میں انہیں پا لیا۔ فوراً تکبیر کے نعرے بلند کر کے دھاوا کر دیا اور وہ لوگ بھاگے۔ اور ان کو رگیدتے، رگیدتے احمد شاہ نے ایسی سخت خونریزی کی کہ سکھوں کو مدتیں گزرنے پر بھی کبھی بھولنے کو نہ آتی۔ وہ ہمیشہ اپنی اس شکست کو ’’گھنو گھاڑا‘‘ (بڑی بھاری) شکست کے نام سے یاد کیا کرتے۔
اس طرح سکھوں کی قوت توڑ کے وہ لاہور ہوتا ہوا افغانستان واپس گیا۔ اور سرہند میں ایک شخص کو اپنا والی بنا کے چھوڑ گیا۔ مگر دوسرے ہی سال 1176ھ (1763ء) میں سکھوں نے پھر زور باندھا۔ والی کو شکست دی۔ اور سرہند کو ایسا لوٹا اور برباد کیا کہ اینٹ سے اینٹ بجا دی چنانچہ آج تک یہ شہر ویران پڑا ہے۔