یہ واقعات سن کر احمد شاہ کو چھٹی بار ہندوستان آنا پڑا چنانچہ 1177ھ (1764ء) میں کابل سے کوچ کر کے آیا۔ اور سارے ملک پنجاب میں ایک دورہ کیا۔ سکھوں نے کسی جگہ جم کے مقابلہ نہیں کیا۔ اور اسی وجہ سے وہ ان لوگوں پر کوئی گہرا اثر نہیں ڈال سکا۔ آخر پھر پھرا کے واپس چلا گیا۔ اور اس کے جاتے ہی سکھوں کا پھر وہی زور تھا۔
تین سال بعد 1180ھ (1767ء) میں ہندوستان پر اس نے ساتواں حملہ کیا۔ لیکن اب کی اس کے دل میں یہ خیال جما ہوا تھا کہ سکھوں کو اسی وقت تک مطیع رکھا جا سکتا ہے جب تک میں خود یہاں مقیم رہوں۔ چنانچہ اب کی آ کر ان کی استمالت کرنے لگا۔ اور اس کوشش میں سرگرم تھا کہ سکھوں کے ایک فریق کو اپنے موفق بنا لے۔ اس مصلحت سے اس نے سکھوں کے ایک سردار ’’پھولکیان‘‘ کو سرہند کا حاکم بنا دیا۔ جس سے ریاست پٹیالہ کی بنیاد پڑی۔ اور یہ علاقہ آج تک اسی کے وارثوں کے زیر فرمان ہے۔ اور ریاست کے راجہ اس کی شکر گزاری میں احمد شاہ کے نام کو اس وقت تک اپنے سکوں میں نقش کراتے ہیں۔
مگر اس کاروائی سے احمد شاہ کی فوج والے خوش نہ تھے۔ چنانچہ ان کا ایک بڑا گروہ اس کا ساتھ چھوڑ کے چلا گیا۔ لیکن اب وفور عمر سے اس کی جرات و شجاعت کا جوش دھیما پڑ گیا تھا۔ واپسی کے وقت مخالف سکھوں نے راستے میں جا بجا اسے چھیڑا۔ ستایا۔ مگر اس نے ان کی سرکوبی کی کوئی کوشش نہ کی۔ اور اس کے افغانستان پہنچتے ہی سکھوں نے روہتاس کے زبردست قلعہ کو حملہ کر کے اپنے قبضے میں کر لیا۔ یہ دریائے جہلم کے کنارے ایک بڑا مضبوط قلعہ ہے، جس کو شیر شاہ سوری نے اپنے عہد میں تعمیر کروایا تھا۔
احمد شاہ کے کارنامے ہندوستان کے ان سات حملوں اور پانی پت کی قیامت خیز لڑائی ہی تک محدود نہیں ہیں۔ مذکورہ حملوں کے درمیان اس کا جو زمانہ ولایت میں بسر ہوتا وہ افغانستان اور خراسان کی بغاوتوں اور وہاں کے ہنگامے فرو کرنے میں صرف ہوتا۔ چنانچہ 1166ھ (1744ء) میں غلزئیوں نے، جو اس کے پرانے خاندانی دشمن تھے دعوت کر دی، مگر احمد شاہ نے اس بغاوت کو نہایت آسانی سے فرو کر دیا۔ بعد ازاں قلات کے حکمران ناصر خان برہونی نے، جو احمد شاہ کا باج گزار تھا، 1171ھ (1758ء) میں علم سرکشی بلند کر کے آزادی و خود مختاری کا دعوی کیا۔ احمد شاہ بلائے بے درماں کی طرح اس کے سر پر جا پہنچا۔ اور قلات کا محاصرہ کر لیا۔ لیکن اس مہم میں اس کی فوج کو بڑی دشواریوں اور مصیبتوں سے سابقہ پڑا۔ چنانچہ ناصر خان نے جو شرطیں پیش کیں انہیں قبول کر کے واپس چلا آیا۔ اسی زمانے سے خانان قلات اگرچہ برائے نام افغانستان کے ماتحت تھے، مگر اور سب حثیتوں سے بالکل آزاد اور خود مختار اور مطلق العنان ہو گئے۔
لیکن احمد شاہ کی فوج میں کثرت سے بلوچی سپاہی تھے۔ بہت سے ازبکوں کو بھی اس نے اپنی فوج میں شامل کر لیا تھا۔ اور ان کے علاوہ خود اس کے گروہ کے ابدانی و دارانی پٹھان تھے۔ پانچویں مہم میں ہندوستان سے واپس جاتے وقت1176ھ میں اس کی مرکب فوج نے گرمی کی شدت سے سخت تکلیفیں اٹھائیں۔ اور اس کا باعث یہ ہوا کہ اس نے موسم کا لحاظ نہ کیا۔ اور جلدی، جلدی مہم کوچ کرتا چلا جاتا تھا۔ اس لیے کہ ہرات کے قریب ایماق لوگوں نے سر اٹھایا تھا۔ اور اسے ان کے سر پر جا پہنچے کی جلدی تھی۔