ہندوستان کے آخری حملے کے موقع پر بھی اسے ایسی ہی عجلت تھی اور اسے فورا واپس جانا پڑا تا کہ خراسان کے معاملات کو صاف کرے۔ اس لیے شاہ رخ کے بیٹے ناصر اللہ نے علم بغاوت بلند کر دیا تھا۔ ایرانیوں نے اس کی مدد پر ایک بڑی متحدہ فوج جمع کر لی تھی۔ اور قیامت یہ کہ اس فوج کا سپہ سالار خود اس کا بیٹا تیمور تھا۔ علاوہ بریں قلات کے سردار ناصر خان اور برہونی بھی اس کی مدد پر تھا۔ احمد شاہ نے پہنچتے ہی ایرانی فوج کو شکست دی۔ مگر خود شاہ رخ، نادر شاہ کے فرزند نے، جس پر احمد شاہ کے بڑے، بڑے احسنات تھے، ان لوگوں کو مشہد میں پناہ دی۔ احمد شاہ نے مشہد کا محاصرہ کر لیا۔ اور بڑی بہادری سے حملہ کر کے مشہد کو فتح کیا۔ مگر شاہ رخ کے ساتھ اب بھی اچھا سلوک کیا۔ اس لیے کہ نادر شاہ کے حقوق کو بھی وہ نہ بھولتا تھا۔ غرض شاہ رخ ہی کو پھر اس نے حاکم مشہد بنایا۔ اور شاہ رخ نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی طرف سے ایک لشکر اس کے جھنڈے کے نیچے لڑنے کے لیے بھیجے گا۔ ماسوا اس کے اس نے اپنی ایک بیٹی تیمور کے نکاح میں دے دی۔

اب چند روز سے احمد شاہ کی طبیعت خراب ہو رہی تھی۔ اور کہتے ہیں کہ اس کو آکلہ (کینسر) ہو گیا تھا جو لاعلاج مرض ہے۔ چنانچہ صحت بخش آب و ہوا سے فائدہ اٹھانے کے لئے وہ علاقہ مرغاب کے اندر توبا کے پہاڑوں میں چلا گیا۔ اور وہیں 1154ھ (1773ء) میں اپنی عمر کے پچاسویں برس رہ گزارے عالم جاوداں ہوا۔ اور تیس برس بادشاہی کر کے دنیا سے رخصت ہوا۔

اگر غور سے دیکھیے تو احمد شاہ عجیب شجاعت و قابلیت کا شخص تھا۔ وہ ہندوستان کا شہنشاہ ہو سکتا تھا اور ہو گیا تھا، مگر اس کی نیک نیتی نے اس کو گوار نہ کیا کہ ایک قدیم مسلمان خاندان شہر یاری کو اپنے ہاتھوں فنا کرے۔ اور محض اس سبب سے کہ اسے وطن چھوڑنا گوارا نہ ہوا۔ پنجاب میں سکھوں کی سلطنت قائم ہو گئی اور وہ بھی اس وجہ سے کہ اس نے مرہٹوں کی قوت کو پامال کر کے پہلے سکھوں کے لیے پھر انگریزوں کے لیے میدان حکمرانی صاف کر دیا۔ اگرچہ اپنی نیک نفسی کے باعث وہ کسی بڑی شہنشاہی کا بانی نہیں ہوا۔ مگر افغانستان کی موجودہ سلطنت اسی کی قائم کی ہوئی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *