فی الحال ہم اور ہمارے تمام ہموطن ’’احمدی‘‘ کے لقب سے پیروان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مرحوم کو جانتے ہیں۔ لیکن تاریخوں کے مطالعہ سے ایک اور پرانا ’’احمدی‘‘ گروہ بھی نظر آتا ہے جو اپنی وسعت اور پھلاؤ میں ہمارے ہم زمانہ احمدیوں سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہ تھا۔ ہمارے میرزا صاحب چونکہ ہر مجدد دین اور ہر مصلح امت ختم المرسلین کو مسیح کے حکم میں اور مسیح کی شان کا تسلیم فرماتے ہیں لہذا ان کی اصطلاح میں حضرت مسیح کے تشریف لانے سے مراد ابن مریم کی اسی ذات اور اسی جسم کا آنا نہ تھا بلکہ یہ تھا کہ امت محمدی میں شان مسیحیت کے احیاۓ دین کرنے والے مقتدا و علما ظاہر ہوں گے۔ اور اس دعوے کے ساتھ انھوں خود اپنے آپ کو بھی ایک مسیح ظاہر فرما کے امت محمدی کی اصلاح شروع کر دی۔ اور ہمیں ان کے اس دعوے کے تسلیم کرنے میں مطلق عذر نہیں ہے۔ جناب میرزا صاحب نے مسیحیت کا دروازہ اپنے ہی لیے نہیں بلکہ اپنے سے بیشتر اور بعد کے سچے مصلحین دین کے لیے بھی کھول دیا۔ جس تحقیق کو ہم جناب میرزا صاحب کی ایک ابدلاباد تک قا‍‍‌‌‏‏ئم رہنے والی برکت و نعمت جانتے ہیں۔ غرض کوئی تعجب نہیں اگر میرزا صاحب کی تحقیق کے مطابق یہ تقریباً سات سو برس پیشتر والے ’’احمد‘‘ بھی منجملہ ان مسیحان امت محمدی کے ایک مسیح ہوں۔

مگر ہمارے میرزا صاحب اور ان پرانے مسیح میں بڑا فرق تھا۔ ع ’’ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است‘‘ ہمارے قریب العہد میرزا صاحب کا رخ ظاہری شریعت کی طرف تھا اور آپ کا عام دار و مدار قرآن و حدیث کے نصوص پر تھا۔ مگر ان کے ہم نام پرانے بزرگ اگرچہ قرآن و حدیث کی پیروی کے بہت بڑے مدعی ہیں مگر ان کا رخ زیادہ تر تصوف و ریاضت اور علم باطن کی طرف تھا۔ ان بزرگوں کا نام احمد البدوی مشہور ہے جو مصر اور سارے شمالی واہ اندرونی افریقہ میں نہایت ادب و احترام سے لیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ اس سرزمین کے بہت بڑے ولی اللہ مانے جاتے ہیں۔ اور ان کے مولد کی رسم افریقہ کے مختلف شہروں میں بڑی شان و شوکت اور بڑے ادب و احترام سے بجا لائی جاتی ہے۔

ان کے آباؤ اجداد کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ خاندان سیادت اور آل فاطمہ میں سے تھے۔ عرب و عراق و شام میں اس زمانہ کی سیاسی کشمکش اور بنی امیہ کے خوف سے 73 ھ میں بھاگ کر مغرب کی طرف رحلت کی اور وطن مالوف کو چھوڑ کر شہر فیض میں پہنچے۔ جو فی الحال مراکش کا دارالسلطنت ہے۔

اسی خاندان سیادت 596 ھ میں شہر فیض کے محلہ زقاق الحجر میں احمد بدوی ممدوح پیدا ہوئے۔ جو سات آٹھ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ والدہ محترمہ کا نام اسلام کا واجب الاحترام نام فاطمہ تھا۔ پدر بزرگوار اگرچہ علی بن ابراہیم کہلاتے تھے مگر اس سے کتب تاریخ و سیر خاموش ہیں کہ اس زمانے میں اور وہاں کے لوگوں میں ان کی کیا حالت و حیثیت تھی۔

سید احمد بدوی کے بہت سے نام اور القاب بتائے جاتے ہیں۔ جن میں سے بعض کا پتہ انہیں کے عہد میں ملتا ہے اور بعض کا نہیں۔ مگر بعد والوں میں مشہور ہو گئے۔ البدوی اس لیے کہلاتے تھے کہ افریقہ میں اس زمانے کے قریب ملثمین کی حکومت تھی جو لوگ اپنے چہروں پر ہمیشہ نقاب ڈالے رہتے تھے۔ چند روز بعد وہاں کے عام بدووں کی یہی وضع ہو گئی۔ اور اسی وضع میں سید احمد بدوی بھی رہا کرتے تھے۔

مکہ معظمہ میں جب انہوں نے آ کر قیام کیا تو العتاب کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ اس لفظ کے معنی مغرب کے اصطلاح میں ’’شہسوار‘‘ کے ہیں۔ اور اسی خصوصیت کی بنا پر ان کا لقب ’’ابو الفتیان‘‘ مشہور ہوا۔ مکہ معظمہ میں ’’الغضبان‘‘ کے سے بھی یاد کیے گئے اس لیے کہ جلدی غصہ آ جاتا۔ اور ان کی کنیت ’’ابو العباس‘‘ تھی۔ یہ حیثیت ایک پاکباطن ولی اللہ اور ہونے کے وہ اکثر ’’القطب‘‘ اور ’’القدی‘‘ کے الفاظ سے بھی یاد کیے جاتے ہیں۔

ہنوز بچے تھے کہ والدین اور بھائیوں کے ساتھ حج کی غرض سے مکہ معظمہ میں آئے ۔ یہ سفر اس طرح تھا کہ راستہ کے ہر شہر میں ہفتوں ٹھہرتے اور جب وہاں کی سیر سے جی بھر لیتا تو آگے بڑھتے۔ اس طرح چار سال کی سیاحت کے بعد 607 ھ میں وارد مکہ ہوئے۔ اس سفر میں ہر جگہ بدوی قبائل نے بڑے ادب و احترام سے ان کے خاندان کا استقبال کیا۔ لیکن انکے سیرت لکھنے والوں نے ان کے مصر میں گزرنے کے حالات بالکل نہیں بتائے ہیں۔

مکہ معظمہ میں چند روز قیام کے بعد ان کے والد محترم کا انتقال ہو گیا اور ’’باب المعلات‘‘ کے قریب دفن ہوئے۔ سید احمد بدوی نے اس کے بعد مکہ ہی میں سکونت اختیار کر لی۔ اور وہیں لڑکے سے جوان ہوئے۔ اگرچہ علمی گھرانے کی یاد گار تھے مگر فنون جنگ اور گھوڑے کی سواری کا بڑا شوق تھا۔ چناچہ ارض حجاز میں ’’شہسوار‘‘ کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ اور اسی کمال نے ان کو ’’العتاب‘‘ اور ’’ابوالفتیان‘‘ کے لقبوں سے بھی مشہور کیا۔

اکتیس برس کی عمر ہوئی تو یکا یک 627 ھ میں ان کی طبیعت میں ایک فوری انقلاب پیدا ہوا۔ دینداری اور صفائے قلب و ریاضت کی طرف رجحان ہوا۔ تلاوت قرآن مجید کا شوق بڑھا اور ساتوں قرأتوں میں اچھا ملکہ پیدا کیا۔ کسی حد تک فقہ شافیعہ کی بھی تحصیل کی۔ اور عبادت و ریاضت میں اس درجہ منہمک ہو گئے کہ دنیا سے بہت ہی کم علاقہ رہ گیا۔ اور ایک خاندان سے شادی کا پیغام آیا تو قطعی طور پر انکار کر دیا۔ اور فرمایا ’’میں نے عہد کر لیا کہ بجز جنت کی حورالعین کے کسی کے ساتھ شادی نہ کروں گا‘‘۔

اب ان کو دنیا کی طرف سے ایسی بے تعلقی ہوئی کہ سب کو چھوڑ جھاڑ کے عزلت گزینی اختیار کر لی۔ خاموش ہوں گے۔ اور کسی سے بات نہ کرتے تے۔ کچھ کہنا ہوتا تو اشاروں میں کہتے۔ بعض اوقات ایک جذب کی سی کیفیت طاری ہو جاتی۔

ان کے بعض سیرت نگاروں کا بیان ہے کہ ان کا وطن سے ارض حجاز میں آ کر مکہ معظمہ میں پاؤں توڑ کر بیٹھ جانا بھی ایک خواب کا نتیجہ تھا۔ بعض کا بیان ہے کہ اس ترک دنیا کے بعد شوال 633ھ میں انہوں نے مسلسل تین خواب دیکھے جن میں اشارہ تھا کہ عراق میں جا کر سید احمد رفاعی المتوفی 570ھ اور شیخ عبدالقادر جیلانی المتوفی 561ھ سے ملو۔ غالباً ملنے سے مراد عالم ارواح میں ملاقات کرنا تھا۔ کیونکہ اس زمانے سے بہت پیشتر بزرگان موصوف کا انتقال ہو چکا تھا۔ چنانچہ شیخ احمد بدوی اپنے بڑے بھائی سید حسن کے ساتھ مکہ سے روانہ ہو کر وارد عراق ہوئے۔

اب اس وقت سے بے حد کرامتیں اور بے شمار خرق عادات کے واقعات ان کی جانب منسوب کئے جاتے ہیں۔ یہ دونوں بھائی دونوں بزرگوں کے مزار پر انوار پر پہنچے۔ دونوں مذکورہ بزرگوں کے علاوہ اور بہت سے اولیا اللہ کے مزاروں کی زیارت کی۔ جن میں زیادہ مشہور منصور بن حلاج المتوفی 309ھ اور ابو الفضائل عدی بن مسافر ہکاری المتوفی 358 ھ تھے۔

ان زیارتوں کے اثر سے بدوی کے دینی جوش میں نیا رنگ پیدا ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ سید احمد رفاعی اور غوث الاعظم جیلانی کے قبضہ قدرت میں ملکوں کی کنجیاں تھیں۔ ان کنجیوں کے تصرف میں دونوں حضرات نے سید احمد بدوی کو بھی شریک کرنا چاہا۔ مگر احمد بدوی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’’میں تو ملکوں کی فتح یابی کو بجز خداوند تعالی کے کسی سے نہ لوں گا‘‘۔

عراق میں ان دنوں ایک جذب میں بھری ہوئی ولیہ کاملہ فاطمہ بنت بری موجود تھیں۔ انہوں نے خود اپنے آپ کو نکاح کے لیے سید احمد بدوی کی خدمت میں پیش کیا۔ مگر سید صاحب نے قطعا انکار کر دیا۔ ان ولیہ بیوی کے جوش عشق اور ان کی اس تمنا میں محروم رہنے کا واقعہ کتب جماہر وغیرہ میں ایک دلچسپ افسانہ عشق کی شان سے بیان کیا گیا۔

ایک سال بعد 634ھ میں احمد بدوی نے ایک اور خواب دیکھا جس نے مجبور کر کے انہیں مملکت مصر کے شہر طنطہ میں پہنچایا۔ اور زمانہ وفات تک ان کا وہیں قیام رہا۔ مگر ان کے بھائی حسن بجائے ان کے ساتھ طنطہ میں آنے کے عراق سے مکہ معظمہ میں واپس آئے۔ جس کے بعد ان کے حالات کا پتہ نہیں ہے۔

طنطہ میں احمد بدوی کی زندگی کا نیا اور اہم ترین دور شروع ہوا ہے۔ اور یہی ان کی ولایت کا آخری عہد تھا۔ کہتے ہیں کہ طنطہ میں وہ ایک تنہائی کے گھر میں کوٹھے پر چڑھ گئے اور دھوپ میں بے حس و حرکت اور خاموش کھڑے ہو کر آفتاب کی طرف ٹکٹکی باندھ دی۔ یہاں تک کہ آنکھیں لال انگارہ ہو گئیں اور جوش کر آئیں۔ معلوم ہوتا کہ چہرے پر دو آگ کی بھٹیاں روشن ہیں۔ بعض زمانوں میں مدت دراز تک خاموش رہتے اور کسی سے بات نہ کرتے۔ کبھی جوش بڑھتا تو دیر تک مسلسل نعرے اور ضربیں لگاتے رہتے۔ ایک بار چالیس دن تک نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ غرض اس قسم کی ریاضتوں کو سرگرمی کے ساتھ اختیار کر لیا۔ جو ہندوستان کے مرتاض جوگیوں یا مسیحیوں کے راہبوں کے لیے مخصوص تھیں۔

شہر طنطہ اور اسکے قرب و جوار کے تمام لوگوں سے ملتے۔ عام اس سے کہ موافق ہوں یا مخالف۔ ایک بار آنکھیں دکھنے کو آئیں تو علاج کے لیے عبد العال نام کے ایک نوجوان طبیب سے ملے۔ جن کا شمار ابھی لڑکوں میں تھا۔ علاج ہی کے سلسلہ میں ان پر سید احمد بدوی کا ایسا زبردست اثر پڑا کے حلقہ بگوش ارادت ہو گئے۔ اور بعد کو وہی آپ کے اسرار باطن کے محرم بن کر آپ کے سجادہ نشین اور خلیفہ قرار پائے۔ اور ان سے بڑی بڑی کرامتیں ظاہر ہوئیں۔ جو ان کے طریقہ کے پیروؤں میں بہ کثر اور معتبر روایات سے مشہور ہیں۔

سید احمد بدوی کے قیام طنطہ کا آخر یہ انجام ہوا کہ ان کے ورود کے زمانے میں جو اولیا اور مشائخ طریقت وہاں مرجع انام بنے ہوئے تھے ان کی شہرت مٹ گئی حسن اخناعی نام کے ایک بزرگ نے ان کی عظمت ماننے سے انکار کیا تو ان کو مجبورا طنطہ چھوڑ کے اور کہیں جانا پڑا۔ ایک دوسرے بزرگ سالم مغربی تھے انہوں نے احمد بدوی کے آگے سر اطاعت جھکا دیا تب طنطہ میں رہ سکے۔ ایک تیسرے بزرگ واضح القمر کے لقب سے مشہور تھے ان کی نسبت احمد بدوی نے برا کہا تھا۔ انجام یہ ہوا کہ ان کا گھر اور ان کی خانقاہ اجڑ گئی۔ اور بالکل تباہ ہو گئے۔ اس زمانے میں مملکت مصر کا فرماں روا ملک الظاہر بیبرس تھا۔ اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اس نے شیخ احمد بدوی کی نہایت تعظیم و تکریم کی۔ اور حاضر ہو کر ان کے قدم چومے۔

احمد بدوی کے مرید اور پیرو ’’سطوحیہ‘‘ با ’’اصحاب السطح‘‘ کہلاتے تھے اس لیے کہ وہ عموما مکانوں کے کوٹھوں پر رہا کرتے تھے۔ اور غالبا اس کی بنیاد وہی واقعہ ہو کے احمد بدوی نے ریاضت کے سلسلہ میں کوٹھے پر ٹھہر کے آفتاب سے آنکھیں لڑائیں تھیں۔ اور ان کے پیرو بھی اس ریاضت کو اختیار کیا کرتے ہوں۔

سید احمد بدوی کا اس زمانہ قیام طنطہ کا حلیہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ لمبے تڑنگے قوی الحبثہ خوش رو۔ گیہواں رنگ۔ خمدار ناک۔ جس کو میں ’’اقنح‘‘ کہتے ہیں۔ چہرے پر چھریوں کے تین داغ۔ ناک پر ددسے۔ اور دونوں آنکھوں کے درمیان چاقو کے ایک زخم کا نمایاں نشان۔ وضع یہ تھی کہ اون کا ایک سرخ خرقہ پہنے اور سر پر عمامہ باندھے رہتے۔ لیکن دونوں لباس کبھی دھلے نہ تھے۔ اور کثرت استعمال سے پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے۔ یہی دونوں کپڑے سند خلاف کی شان سے ان کے خلیفہ اور سجادہ نشین کو ملے۔ بات کرنے کا انداز یہ تھا کہ قسم کھاتے تو کہتے ’’وعزۃ ربی‘‘ ( میرے پروردگار کی عزت کی قسم )۔ مرنے سے چند ہی روز پیشتر انہوں نے مصر میں کسی کو لکھا تھا کہ ’’میری کشتی کے بلیاں وسیع سمندر میں چل رہی ہیں۔ چاہے ساری دنیا کے ناؤں کے گرد پانی نہ رہے مگر میری کشتی کا پانی ہمیشہ باقی رہے گا‘‘۔ اس سے لوگوں کو یقین ہو گیا کہ انہیں اپنی وفات کا زمانہ معلوم ہو گیا تھا۔

معمول تھا کہ راتوں کو بلا ناغہ تلاوت کیا کرتے۔ اور یہ بھی معمول تھا کہ دعا میں دو امام ان کے ساتھ شریک رہتے جو ہر دعا پر آمین کہا کرتے۔ ان کی باطنی حالت کا سچا آئینہ یہ جملہ ہے کہ ’’حضور اکثر من غیابہ ( ان کا ہوش خوش رہنا از خود خود رفتہ رہنے سے بہت زیادہ تھا ) یعنی اکثر ایک عالم محویت طاری رہتا۔ اور فنا فی اللہ نظر آتے۔

اس طرز عمل پر 41 سال تک رہنے کے بعد انھوں نے 12 ربیع الاول 675ھ میں سفر آخرت کیا۔ یہ وہی دن تھا جس دن حضرت سرور عالم رسول خدا صلعم نے اپنے ’’رفیق اعلی‘‘ خدا وند عالم کے پاس تشریف لے جانے کو اختیار فرمایا۔ اور اس سے زیادہ خوش نصیبی احمد بدوی کی یہ بتائی جاتی ہے کہ ولادت بھی اسی تاریخ ہوئی جس دن حضرت رسول آخر الزماں دنیا میں تشریف لائے تھے۔

ان کے بعد ان کی یہ چیزیں زمانے اور ان کے پیرووں کو ان کی یاد گار ملیں۔ ( 1 ) ایک حزب جو ان کا وظیفہ تھا ( 2 ) ان کی نمازیں بارہویں صدی ہجری کے مشہور شیخ طریقت صوفی عبدالرحمن بن مصطفی عبد روس نے جو 1135ھ سے 1178ھ تک دنیا میں موجود تھے ان نمازوں کے حالات شرح وسبط اپنی ایک کتاب میں لکھے ہیں جس کا نام ’’فتح الرحمن‘‘ ہے۔ ( 3 ) شیج احمد بدوی کے ’’وصایا‘‘ جن مخاطب اگرچہ ان کے خلیفہ اور سجادہ نشین عبد العال تھے مگر ان میں کوئی خاص شخصی بات نہیں بلکہ عام فہم کی ہدایتیں اور نصیحتیں ہیں۔ ان میں اس عہد کے عام اسلامی تصوف کی ہدایتیں اور بعض ایسی باتیں نظر آتی ہیں جن کو اسلام کے سوا غیر اسلامی تصوف سے بھی تعلق ہے۔ اسی بنا پر بعض متاخرین کو شبہ ہے کہ یہ وصیتیں فی الحقیقت احمد بدوی کی ہیں یا نہیں۔ اور ان کو ایسے بزرگ یا شیخ طریقت کی طرف سے منسوب بھی کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ ان میں پہلے تو یہ ہدایت ہے کہ قرآن اور سنت کو اختیار کرو۔ قیام اللیل کی بہت تعریف کی ہے۔ اور فرمایا ہے کہ رات کی ایک رکعت دن کی ہزار رکعتوں کے برابر ہے۔ ’’ذکر‘‘ کی خوبی نہایت زوردار الفاظ میں کی ہے۔ اور تاکید کی ہے کہ اس میں دل کا تعلق رہنا شرط ہے۔ ذکر ان کے طریقے پر صرف نعرے اور ضربیں لگانے کا نام ہے جس کو ان کی اصطلاح میں ’’شقشقہ‘‘ کہتے ہیں۔ ارشاد ہوا کہ ذکر کا پھل ’’وجد‘‘ یعنی محبت الہی ہے۔ اور خدا کی وحدت میں غرق ہوتے وقت نور وحدت کی ایک شعاع ذاکر کے دل میں داخل ہو کر اس کے سارے جسم میں لرزہ و رعشہ ڈال دیتی ہے جس کے بعد اس میں محبوب ( یعنی خدا کے ) شوق کا انتظار پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اس کی ذات بالکل اسی سے وابستہ ہو جاتی ہے۔ فرماتے ہیں ’’یقین سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے اور جس کا یقین سب سے زیادہ راسخ وہی سب سے اچھا ہے‘‘۔

ان کا اور ان کے پیروؤں کا مسلک مندرجہ ذیل فقروں سے آشکار ہو سکتا ہے۔ فرماتے ہیں ’’ہمارا طریقہ قرآن و حدیث کی پیروی ہے اور وہ حق۔خلوص۔ صدق۔ تجمل۔ اور پابندی عہد مبنی ہے‘‘۔ دوسری جگہ کہتے ہیں’ ’بری مسرتوں میں منہمک نہ ہو۔ کسی کو تہمت نہ لگاؤ۔ ہمسائے کو ایذا نہ پہنچاؤ۔ اور اس کے ساتھ برائی کا بدلہ بھلائی سے کرو‘‘ ۔ان کہ ان کلمات حق سے الہام کی شان ہویدا ہوتی ہے ’’یتیموں پر ترس کھا۔ ننگوں کو کپڑا پہنا۔ غریب الوطن مہمان کی تعظیم کر۔ شاید خدا تجھ سے راضی ہو جائے‘‘۔یہ فقرہ بھی سچی انسانیت کا اصلی شعار کہا جا سکتا ہے ’’محبت دنیا زہد و تقوی کو اس طرح غارت کر ڈالتی ہے جیسے سرکہ شہید کو‘‘۔ الفاظ ذیل مسئلہ امامت کی ایک نمایاں جھلک دکھا رہے ہیں ’’شیخ اپنے گروہ میں ویسا ہی ہے جیسے کہ ایک پیغمبر اپنی امت میں‘‘۔

احمد بدوی کے اس بلیغ جملے نے مسیحیوں کو عجب گومگو کے عالم میں ڈال دیا۔ فرماتے ہیں ’’فقرا مثل زیتون کے درختوں کے ہیں۔ بعض چھوٹے اور بعض بڑے۔ ان میں سے وہ جن میں تیل نہیں ان کا پھل میں ہوں‘‘۔ عیسائی اس فقرے کے متعلق اس لئے تردد میں پڑ گئے کہ انجیل یوحنا کے پندرھویں باپ کی پہلی اور دوسری آیتوں میں حضرت مسیح کا یہ فقرہ بتایا گیا ہے کہ ’’میں سچے انگور کا درخت ہوں اور میرا باپ باغبان ہے۔ مجھ میں جو ڈالی میوہ نہیں لاتی اسے وہ چھانٹ ڈالتا ہے‘‘۔

شیخ احمد بدوی کے انتقال کے بعد شیخ عبد العال جو عہد صبلی سے ان سے واقف اور محرم اسرار تھے۔ اور چالیس سال تک جنہوں نے شیخ کی خدمت و رفاقت کی تھی اور ان کے جانشین اور خلیفہ ہوئے۔ اور شیخ کے شعائر و اطوار کو اختیار کیا۔ یعنی سر پر لال کلاہ۔ چہرے پر نقاب اور کندھے پر علم سرخ۔ خلیفہ ہوتے ہی انہوں نے مرشد کے مزار پر ایک خانقاہ تعمیر کرائی۔ جو تھوڑے ہی زمانے میں ترقی کرتے کرتے ایک عظیم الشان مسجد بن گئی۔ مریدوں کو انہوں نے سختی کے ساتھ اپنے اصول کا پابند رکھا۔ رسوم دین کا خوب اہتمام کے ساتھ انتظام رکھا اور 733ھ میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔

احمد بدوی کی شہرت و عظمت دور دور کے مقاموں اور شہروں میں نہایت تیزی کے ساتھ بڑھتی رہی۔ اگرچہ خفیف اور بے نتیجہ مزاحمتیں بھی اکثر پیش آئیں مگر وہ کبھی کامیاب نہ ہوئیں۔ مخالفین میں کچھ تو وہ فقہ و احادیث کے طلبہ تھے جو تصوف ہی کے خلاف تھے اور کچھ سیاسی اصول و مذاق کے امرا تھے جو صوفیوں کی حکومت کو تسلیم کرنے میں تائل کرتے۔ اور حالت یہ ہو رہی تھی کہ سارے ملک کے میں اس خانقاہ کے حلقہ اثر میں آ جانے کے باعث یہاں کے خلیفہ تمام سیاہ و سفید کے مالک اور اصلی حاکم بن گئے تھے۔ اور غالبا انھیں مخالفتوں کی وجہ سے دو بار یہ حیرت انگیز واقعہ پیش آیا کہ ’’البدوی‘‘ سجادے کے جانشین مار ڈالے گئے۔ مقبول انام علما و مصنفین میں سے جن بزرگ نے اول البدوی مسلک سے اختلاف کیا اور بعد کو حلقہ ارادت میں داخل ہو گئے امام ابن دقیق العید المتوفی 703ھ اور ابن اللبان المتوفی 739ھ ہیں۔

پہلے سجادہ نشین خانقاہ کے زمانے میں خود شیخ احمد بدوی کے پیرووں میں ایک باہمی نزاع سنی جاتی ہے۔ احمد بدوی کے پر جوش معتقدین میں سلطان قائد بے تھا جو 888ھ میں سید احمد بدوی کے مزار کی زیارت کو آیا اور حکم دیا کہ روضے کی عمارت زیادہ وسیع اور عالیشان بنائی جائے۔ اس لئے کہ پرانی عمارت شکستہ اور مرمت کے قابل ہو گئی تھی۔ سلاطین مملوک مصر کے زمانے میں دیگر علما و فضلا اور مشائخ کے ساتھ احمد البدوی کی درگاہ کا جانشین بھی شریک دربار ہوا کرتا تھا.

دولت عثمانیہ کے عہد میں معلوم ہوتا ہے کہ بدوی خانقاہ اور اس کے گروہ کی شوکت و عظمت کمزور ہو گئی تھی۔ اور باعث یہ ہوا کہ زبردست سلطنت عثمانیہ کی اطاعت سے ان لوگوں کو انحراف تھا۔ اور سلطنت کی قوت انھیں کمزور کیے دیتی تھی۔ باوجود اس سیاسی انقلاب کے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ شیخ احمد بدوی کی عظمت مصر والوں کے دل سے نکل گئی ہو۔ اس لیے کہ مدت دراز سے مصر میں ان کی حیثیت کامل ترین ولی اللہ کی چلی آتی تھی۔ اور یقین کیا جاتا تھا کہ وہ اپنے تصرفات سے مملکت مصر کو اکثر مشکلوں اور تباہیوں سے بچا چکے ہیں۔ بہت سے مسلمان اسیروں کا نصارا کے ہاتھ سے چھوٹنا بھی ان کی ایک اعلی درجہ کی کرامت تصور کیا جاتا تھا۔ چنانچہ اسی بنا پر ان کے القاب میں ’’مجیب الاساری‘‘ کے کلمات بھی داخل تھے۔

ان کے مقبول عام اور سب سے زیادہ محترم مانے جانے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ مصر اور ممالک افریقہ میں سال میں تین بار شیخ مذکور کے مؤلد کی مخالفتں ہوا کرتی ہیں۔ اہل حدیث کو حضرت رسالت کا مؤلد کرنے سے بھی اختلاف تھا مگر آنحضرت صلعم کے علاوہ کسی اور کا مؤلد کرنا عام مسلمان اور دیگر مسلکوں کے صوفیہ بھی جائز نہ رکھتے تھے۔ آنحضرت صلعم اور شیخ احمد بدوی کی تاریخ ولادت ایک ہی سمجھی جاتی تھی لہذا معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا صلعم کے مؤلد تھوڑے سے تصرف کے ساتھ ان شہروں میں شیخ احمد بدوی کے مؤلد بن گئے۔

شیخ احمد بدوی کے متبعین ’’احمدیہ‘‘ کہلاتے ہیں جو بلاد افریقہ اور ساری قلمرو مصر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور ان کا شعار سرخ عمامہ ہے۔ مرور زمانہ سے ان کے کئی گروہ ہو گئے ہیں۔ ( 1 ) بیرومیہ ( 2 ) شنادیہ ( 3 ) اولاد نوح ( 4 ) شعیبیہ۔

ایک مدت دراز تک مصر میں احمد بدوی کا شمار حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی۔ سید احمد رفاعی۔ اور شیخ ابراہیم و سوقی کی طرح اقطاب میں تھا۔ شیخ احمد بدوی کے پیرووں میں ایک بڑے نامور عالم اور مصنف شیخ عبد الوہاب شعراوی المتوفی 973ھ تھے۔ ان کا خاندان بھی اتفاقا شیخ احمد بدوی کی طرح ملک کے مغرب سے مصر میں آیا تھا۔ چنانچہ شعراوی اسی نسبت سے اپنے آپ کو احمدی کہا کرتے۔ آخر میں وہ شیخ کی زیارت کے لئے ان کے مزار پر گئے۔ انہیں بہت بڑا صوفی پاک باطن تسلیم کیا۔ اور عالم رویا میں ان سے گفتگو بھی کی۔ ان باتوں میں شیخ نے علامہ شعراوی کو ’’النور الواحد‘‘ کے لقب سے یاد فرمایا۔

شیخ احمد بدوی سے بہت سے کرامات و خوارق عادات نمایاں ہوئے جنہوں نے ملک مصر اور ممالک افریقہ کو ان کا عقیدہ کیش بنا دیا۔ اور بعد کے تمام اہل سیر نے ان کے حالات کتب تاریخ و سیر میں درج کر دئیے۔ المقریزی۔ ابن حجر عسقلانی اور جلال الدین سیوطی نے خصوصیت کے ساتھ ان کے حالات زندگی اپنی کتابوں میں داخل کیے ہیں۔ اور عبدالصمد زین الدین نے خالص ان کے حالات و مناقب میں ایک کتاب بنام ’’الجواہر السنیہ فی الکرامات والنسب الاحمدیہ‘‘ لکھی جو 1305ھ میں قاہرہ میں چھپ بھی گئی ہے۔

غرض ہمارے ہندوستانی احمدی بزرگوں کو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں اکیلے وہی احمدی ہیں۔ بلکہ ایک اور مذاق و خیال کے احمدی بھی اسلامی دنیا کے اندر موجود ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *