غرض 923 ھ سے خلافت سلاطین ترکان آل عثمان سے وابستہ ہو گئی۔ اُس وقت سے آج تک مسلمانوں نے کبھی یہ بحث نہیں چھیڑی کہ خلافت خاص قریش کا حق ہے۔ اور دنیا کی کوئی اور قوم اس حق کو نہیں حاصل کر سکتی۔ نہ متوکل علی اللہ نے سلطان سلیم کے سامنے یہ عذر پیش کیا کہ آپ ترک ہیں اور خلافت عربوں اور عربوں میں بھی خاص قبیلہ قریش کے لوگوں کا حق ہے اور نہ مسلمانوں میں کبھی اُس پر ناراضی کا اظہار ہوا۔ اور اس زمانے میں مسیحی دول یورپ نے بھی کبھی یہ شہر نہیں پیدا کیا ۔ مگر ہاں اس آخری صدی میں جب طرح طرح کی سازشوں اور مکاریوں سے ترک زیر کر لیے گئے تو مسئلہ بھی دنیا میں اُٹھایا گیا۔ اور مختلف ممالک کے مسلمانوں اور فقیہوں میں ایسے مفتی پیدا کرائے گئے جو ترکوں کی دینی سیادت کے خلاف ہوں اور خلافت کو عربوں کے سوا اور کسی کا حق نہ تسلیم کرتے ہوں۔

لیکن اس میں شک نہیں کہ ترکوں میں آنے سے خلافت کو اپنی وہ اگلی شرکت و سطوت پھر حاصل ہو گئی جو مامون و معتصم کے بعد رخصت ہو گئی۔ تھی اصل یہ ہے کہ تاتاریوں کے حملے سے صدیوں پہلے ہی عربوں کا دور ختم ہو چکا تھا۔ اس لیے کہ المعتصم کے چند ہی روز بعد سے خلافت اگر برائے باقی بھی تھی تو سلجوقیوں اور ذیلمیوں کے پاؤں پر کھڑی ہوئی تھی۔ بغداد کی تباہی کے بعد جو فقط نام کی خلافت مصر میں قائم تھی اُس کا مذہبی عنوان سے چاہے جس قدر ادب و احترام کیا جاتا ہو مگر اصل ميں وہ سلاطین مصر کے ہاتھ کی کٹھ پتلی تھی۔ جس خلیفہ کو وہ چاہتے مسند خلافت پر سے دھکیل دیتے اور جس کے سر پہ چاہتے جانشینی رسول کا عمامہ رکھ دیتے۔

سلطان سلیم کے خلیفہ ہوتے ہی خلافت میں جلال و اقبال پیدا ہو گیا۔ بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے شوق نے سلجوقیوں کے زمانے سے یورپ میں جو جوش و خروش پیدا کر دیا تھا اُس کے روکنے کی قوت اب اُن مسلمان ترکی فرماں رواؤں میں مطلقا نہیں باقی تھی جنھوں نے شام و عراق کے شہروں کو آپس میں بانٹ لیا تھا۔ اور ہمیشہ باہم لڑتے بھڑتے رہتے تھے۔ مگر مسلمانوں کے حال پر خدا کی مہربانی ہوئی کہ ترکان آل عثمان نے ان سب چھوٹے چھوٹے سردارون کو زیر کر کے طوائف الملوکی دور کی اور ایک زبردست سلطنت قائم کر دی جس کے آگے دینیوب سے دجلہ تک دریائے پیر کتھ سے نیل تک۔ اور بحر اسود سے بحر ہند تک تمام ممالک اور کل قومیں سر جھکائے ہوئے تھیں۔ چنانچہ اب بجائے اس کے کہ یورپ کی صلیبی مہمیں مصر و شام تک پہنچیں ان کی رفتار جزیرۂ بلقان تک محدود ہو گئی۔ اور بہت سی صدیاں اس شان سے گزر گئیں کہ سارہ یورپ اتحاد کر کے ترکان آل عثمان کے مقابلے پر آتا۔ اور زکین اُٹھاتا۔ یہی سبب ہے کہ اُن دنوں سلاطین ترک جو خلافت رسول کی مسند پر بیٹھے ہوئے تھے اپنے سامنے یورپ کے کسی فرمان روا کی کچھ ہستی نہ سمجھتے تھے۔ اور کسی کو بادشاہ تسلیم کرتے تھے۔

سلطان سلیم نے 9 شوال 926ھ، 1520ء کو وفات پائی تو اُس کا جانشین سلیمان عالیشان ہوا جو سلیمان قانونی کے لقب سے مشہور ہے۔ اس کا زمانہ پہلے سے بھی زیادہ سطوت و جبروت اور اقبال مندی کا زمانہ تھا۔ اور اُسی کے وقت میں پہلے پہل فرانسیسیوں اور باب عالی خلافت کے درمیان تعلقات دوستی قائم ہوئے۔

اس کا باعث یہ ہوا کہ فرانس کا بادشاہ اُن دنون فرانسس اول تھا اور چارلس شاہ آسٹریا سے اُس کی رقابت تھی۔ اور چارلس اُن دونوں قرابتوں اور مختلف اسباب سے اسپین ہالینڈ جرمنی اور جنوبی اٹلی پر متصرف ہو گیا تھا جس کے باعث فرانس کی ملکت بالکل محصور تھی۔ اپنی یہ نازک حالت دیکھ کر شاہ فرانس کو بجز اس کے کسی بات میں مفر نا نظر آیا کہ خلافت اسلامیہ کو اپنے حال پر مہربان کرے۔ چنانچہ اس نے سلیمان عالیشان کے دربار میں سفارت بھیجی جس کو سلطان کی باریابی حاصل ہوئی۔ اور سلطان نے اوئل ربیع الثانی 923 ھ میں اُس کو جو جواب بھیجا تاریخوں میں موجود ہے۔ اُس کا پورا پورا نقل کر دنیا لطف سے خالی نہ ہو گا۔ کیونکہ اس کو پڑھہ کے نظر آسکتا ہے کہ ان دونون دولت خلافت عثمانیہ کا دنیا میں کیا درجہ تھا۔ اور فرانس کی اُس کے سامنے کیا شان تھی۔ اس فرمان سلطانی کا لفظی ترجمہ حسب ذیل ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *