27 شعبان 983ھ، 1574ء کو سلیم ثانی نے وفات پائی اور اس کا بٹیا مراد خان ثالث مسند خلافت پر بیٹھا- 8 جمادی الاولی 1003ھ، 1596ء کو اس سلطان نے بھی عالم آخرت کی راہ لی۔ اور اُس کا فرزند محمد خان ثالث تختہ خلافت پہ بیٹھا۔ اس سلطان کے زمانے میں فوج کی قوت سلطنت پر اس قدر غالب آگئی کہ روک تھام مشکل ہو گئی۔ مگر ینی چری فوج نے سلطنت کا ساتھ دیا اور وہ فتنہ فرو ہوا۔ 16 رجب 1012ھ، 1603ء کو سلطان محمد خان نے عالم بقا کی راہ لی۔ اور اُس کا بیٹا احمد خان اول سلطان ہوا۔ اس نے 23 ذیقعده 1026ھ، 1617ء میں دنیا کو رخصت کیا اور مصطفی خان سریر خلافت پر جلوہ فرما ہوا۔ مگر پورے چار مہینے بھی حکومت نہیں کرنے پایا تھا کہ یکم ربیع الاول 1027ھ، 1618ء کو تخت سے اتار دیا گیا۔ اور وزرا و ارکان دولت نے عثمان خان ثانی کو تخت پر بٹھایا۔ مگر سرداران ترک میں اب بادشاہوں کو معزول کرنے کی ایسی جرأت بڑھ گئی تھی کہ 15 ذیقعدہ 1032ھ، 1623ء کو وہ بھی سریہر جہان بانی سے اتار دیا گیا۔ اور مراد خان رابع نے اُس کی جگہ لی۔ مراد خان نے 14 شوال 1049ھ، 1640ء کو وفات پائی۔ اور اُس کا جانشین ابراہیم خان اول ہوا۔ مگر فوج میں اُس کی جانب سے بھی ایسی ناراضی بڑھی کہ 2 شعبان 1085ھ، 1648ء کو تخت سے معزول ہوا۔ اور اُس کے دس روز بعد قتل بھی کر ڈالا گیا۔ اس کی جگہ محمد خان رابع تخت پر بیٹھا۔ اس سلطان نے اپنے آبا و اجداد کی نسبت بہت زیادہ زمانے تک جہان بانی کی 39 سال حکومت کرتا رہا۔ مگر انجام وہی ہوا کہ 2 محرم 1099ھ، 1687ء کو سلطنت سے معزول کردیا گیا۔ اب سلیمان خان ثانی بادشاہ ہوا۔ اس نے 26 شعبان 1102ھ، 1691ء میں سفر آخرت کیا۔ اور احمد خان ثانی مسند خلافت پر بیٹھا۔ وہ 22 جمادی الثانی 1106ھ، 1695ء کو راہی عدم ہوا ۔ اور مصطفی خان ثانی سریر آرائے خلافت ہوا۔ لیکن 12 ربیع الآخر 1115ھ، 1703ء کو تخت سے اتار دیا گیا۔ اور اُس کی جگہ احمد خان ثالث کو دی گئی وہ بھی 15 ربیع الاول 1143ھ، 1730ء کو معزول ہوا۔ اور محمود خان اول تخت خلافت پر بیٹھا ۔ اُس نے 27 صفر 1168ھ، 1754ء میں وفات پائی۔ اور عثمان خان ثالث نے تاج خلافت و شہنشاہی پہنا۔ اُس نے 16 صفر 1171ھ، 1757ء کو آغوش لحد میں آرام کیا۔ اور اُس کا جانشین مصطفے خان ثالث قرار پایا۔ اس نے 11 ذیقعدہ 1187ھ، 1774ء کو وفات پائی اور سلطان احمد خان ثالث کا بیٹا عبد الحمید اول سریر خلافت پر بٹھایا گیا۔ عبدالحمید خان نے 16 رجب 1203ھ، 1789ء کو سفر آخرت کیا۔ اور اُس کا جانشین مصطفے خان ثالث کا بیٹا سلیم خان ہوا۔ جو آل عثمان میں اس نام کا تیسرا تاجدار ہے۔ اُس کے زمانے میں ایسی بد نظمی ہوئی اور ایسے ہنگا مے پیدا ہوئے کہ 21 ربیع الآخر 1222ھ، 1807ء کو تخت خلافت سے اتار دیا گیا اور مسطفی خان رابع عبد الحمید خان اول کا بیٹا تھا سلطان بنایا گیا ۔ وہ بھی 4 جمادی الثانیہ 1223ھ، 1808 کو تخت سے اتر کے قتل کر ڈالا گیا۔ اور محمود خان ثانی سریر جہاں بانی پر جلوہ فرما ہوا۔

محمود خان نے 19 ربیع الثانی 1675ھ، 1839ء کو انتقال کیا۔ اور سلطان عبد المجید خان تخت نشین ہوئے جن کے عہد میں سپاہیوں کی عظیم لڑائی ہوئی۔17 ذی الحجہ 1277ھ، 1861ء کو عبد المجید خان دنیا سے رخصت ہوئے۔ اور مسند خلافت پر اُن کے بھائی سلطان عبد العزیز خان نے قدم رکھا۔ اُن کے آخر عہد میں روس اور دیگر دول یورپ کی سازشوں اور فتنہ انگیزیوں سے ایسے ہنگامے ہوئے کہ معززین سلطنت نے 6 جمادی الاولی 1292ھ، 1876ء کو انھین سلطنت سے معزول کر کے مراد خان خامس کو تخت پر بٹھایا۔ مگر وہ بھی اپنی دماغی خرابیوں اور کمزوریوں کے باعث چند ہی ماہ بعد 16 شعبان 1293ھ، 1877ء کو معزول کیے گئے۔ اور سلطان عبد الحمید خان کو تخت سلطنت پر جگہ دی گئی۔ عبد الحمید خان کا زمانہ با وجود ان کے اعلی تدبر کے خلافت اسلامیہ اور دولت عثمانیہ کے لیے نہایت ہی خطرناک رہا۔ یورپ کی کیادانہ دست درازیوں کو وہ اپنی پالیسی سے ہمیشہ مسترد کرتے رہے مگر جب خود اُن کی قوم کے وہ لوگ جنہوں نے یورپ کی آغوش میں پرورش پائی تھی بغاوت و مخالفت پر اُٹھ کھڑے ہوے تو اُنھن تخت و تاج سے دست بردار ہو جانا پڑا۔ اور نوجوان آزاد خیالوں نے سلطان محمد خامس کو تخت پہ بیٹھا کے سلطنت کرنا شروع کی۔ ان انقلابات کو یورپ نے خاموشی کے ساتھ دیکھا اور جب دیکھا کہ سلطنت کے اندرونی جھگڑے نہایت ہی صلاحیت کے ساتھ طے ہو گئے تو باہم اتفاق کر کے کوشش کی کہ دولت عثمانیہ کو بالکل فنا کردیا جائے۔ چنانچہ اٹلی نے طرابلس الغرب پر بے سبب اور بے پوچھے گچھے قبضہ کر لیا۔ اور سب نے اُس کی تائید کی۔ اس کو بھی دولت عثمانیہ نے صبر و شکر کے ساتھ برداشت کر لیا۔ تو بلغاریہ، سرویہ، مانٹی نیگرو اور یونان ابھار دیے گئے۔ جنھوں نے یکایک حملہ کر کے اور جمہوریت ترکی کے کارکنوں سے سازش کر کے سارے جزیرہ نما بلقان کو ترکوں کے قبضے سے نکال لیا۔

یہ جھگڑے اچھی طرح سے نہیں ہونے پائے تھے کہ آخری عظیم الشان جنگ چھڑ گئی۔ جس من جرمنی و آسٹریا کی سلطنتین ایک طرف تھیں اور ساری دنیا ایک طرف۔ ترکوں کو اپنی بعض مصلحتوں سے جرمنی کا ساتھ دینا پڑا جس میں جرمنی کو شکست ہوئی اور اب جو فیصلہ کیا گیا ہے اُس میں جرمنی، آسٹریا، بلغاریہ سب تھوڑے تھوڑے نقصان کے ساتھ اپنی حالت پہ قرار رکھے گئے ہیں مگر اسلامی خلافت اور ترکی سلطنت کی نسبت چاہا جاتا ہے کہ فنا کر دی جائے۔

خلافت کی گذشتہ تاریخ سے نظر آر ہا ہے کہ کئی بار خلافت کے لیے برے دن آئے مگر ہمیشہ دوست برد زمانہ سے بچ گئی اور گر گر کے اٹھی اور سنبھلی۔ مگر اب اس کا گرنا ویسا ہے کہ سو مٹ جانے کے بچنے کی کوئی امید نہیں نظر آتی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *