لوگ انگریزوں یا یورپ والوں کو الزام دیتے ہیں مگر ہمارے نزدیک اس کا اصلی الزام کسی کو ہر گز نہیں دیا جا سکتا۔ جو کچھ الزام ہے خود مسلمانوں پر ہے۔ یہ جو کچھ ہوا سب اپنے ہاتھ کا کیا ہوا ہے۔ شریف مکہ نے بیت المقدس کے عیسائیوں کے ہاتھ میں جانے پر خوشیاں منائیں اور خلافت کی بیخ کنی میں پوری کوشش کی۔ عراق کے عربون نے خود ذوق و شوق سے انگریزوں کو بلایا اور ترکوں پامال کیا۔ شام کے مسلمان غیر مذہب حملہ آوروں کے ممد و معاون بنے۔ ہندوستان بلوچستان اور سرحدی صوبے کے لاکھوں مسلمان ترکوں اور خلافت کی قوت مٹانے کے لیے برٹش جھنڈے کے ساتھ میدان جنگ میں آ گئے۔ اور انگریزی وزرا نے صاف اعلان کر دیا کہ بیت المقدس اور شام کو مسلمانوں نے فتح کیا۔ ہمارے نزدیک تو اس موقع پر مسلمانوں کو گریبان میں سر ڈالنا چاہیے نہ کہ بے حیائی سے سر اٹھا کے انگریزوں کو الزام دیں۔ فرنگستان نے اپنی تیرہ سو برس کی مسلسل کوششوں میں آج پوری کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سے امید کرنا کہ اپنے صدیوں کے تاریخی حریف کو مغلوب کر کے اُس کی گم شدہ وقعت خیرات کے طور پر عطا کرے گا ہوا میں قلعہ بنانا ہے۔ جس قوم میں ایسے ٹریٹر موجود ہوں جیسے کہ ہم کو گزشتہ لڑائی میں نظر آ گئے وہ قوم دنیا میں باقی نہیں رہ سکتی۔ اور نہ باقی رہنے کی مستحق ہے
سچ تو یہ ہے کہ مسلمان اب کوئی قوم نہیں۔ وہ نفس کے بندے ہیں اور اپنے ذاتی اغراض پر قومیت اور دین دونوں کو قربان کر چکے ہیں۔ وہ دین اور خلافت کو ضرر سے بچانے کے لیے اپنی زمینداریاں، اپنی تجارت، اپنے گھر بار، اپنی ذلیل دولت اور اپنی تن آسانی کو نہیں چھوڑ سکتے۔ قومی مصیبت نے نہ اُن کی شادیاں رکوائیں نہ اُن سے عیش و نشاط کی صحبتیں ترک کرائیں۔ براتیں اُسی دھوم سے نکلتی ہیں، عروسی کی محفلوں میں رنڈیاں اسی ناز و انداز سے ناچتی ہیں، زچگیوں اور سالگرہوں اور دوسری تقریبوں میں ڈھول اُسی گرم جوشی سے بجتی ہے اور اللہ میاں کی سلامتی رتجگوں میں اُسی آن بان سے گائی جاتی ہے۔ جب یہ حال ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ اس قوم پر کوئی مصیبت پڑی ہے۔ مسٹر محمد علی کے ایسے دو چار آدمیوں کے چلانے اور آہ و وایلا کرنے اور مولوی فاخر صاحب کے ایسے دو چار بزرگو کے قید میں چلے جانے سے کیا ہوتا ہے۔
شریف که غاصب ہے اور قوم کی بیخ کنی کا ناپاک ترین مجرم۔ حرمین شریفین فی الحال وہ شہر ہیں جو غصب کیے ہوئے ہیں اور غاصب کے قبضے میں ہیں۔اور مغصوبہ زمین پر ہمارے سیاسی واخلاقی مسلک میں نماز نہیں جائز ہے۔ مسلمانوں سے اتنا تو ہو نہیں سکتا کہ جب تک ان محترم شہروں پر اس غاصب کا قبضہ ہے حج کو جانا چھوڑ دیں تا کہ اس کہ اس غاصب قومی نمک حرام کو اپنے جرم کی کچھ تو سزا ملے۔ اور انگریزوں کو بھی محسوس ہو کہ مسلمانوں نے خلافت کے زوال کو کہاں تک محسوس کیا۔
یہود کا جب بیت المقدس میں استیصال ہوا ہے تو اُن میں جب مقابلہ کی قوت نہ باقی رہی تو رونے والوں کا ایک پر جوش گروہ پیدا ہو گیا تھا۔ جو اپنے قومی زوال پر پانچ چھ صدیوں تک روتا اور نوحہ خوانی کرتا رہا۔ ہمارے یہاں تو افسوس کوئی رونے والا بھی نہیں۔ جتنے ہیں خوش اور بشاش اور یہ اطمینان تمام شادان و فرحان ہی
نو عمر نا تجربہ کار جوش ظاہر کرنے والوں کا بجائے خود بے سرو پا اور نا ممکن العمل تجویزیں قرار دے لینا خصوصا جب کہ قوم کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی بالکل بیکار اور بے نتیجہ ہے۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں ہماری قسمت دے دی گئی ہے وہ بجز اس کے کہ ان باتون کا مضحکہ اڑائیں ہمارے شور و غل کی مطلق پروا نہیں کرتے۔
بہر حال گذشتہ سال اس انجام پر ختم ہوا۔ اور موجودہ سال ہمارے لیے اس قومی بے حیائی کو لے آیا ہے لہذا اب ہم مردہ ہیں اور جینے کے تمام علامات و آثار ہم سے مفقود ہو چکے۔