صلح کانفرنس 1مراد پیرس پیس کانفرنس جو پہلی جنگ عظیم کے بعد فاتح اقوام کی طرف سے منعقدہ کی گئی جہاں لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ (عدنان) نے ترکی کی یادداشت پر جو جواب دیا گیا ہے اور ایشائے کوچک میں یونان جو گل کھلا رہا ہے اس پر ایک عالم انگشت بداندان ہے کہ خدایا ! فرشتہ صلح ولسن 2ولسن سے یہاں مراد دوسری جنگ عظیم کے وقت امریکہ کے صدر ووڈرہ ولسن (Woodrow Wilson) ہیں۔ (عدنان) کا یہ وعدہ کہ دولت عثمانیہ کے ترکی علاقہ کی آزادی سلطنت محفوظ سمجھنا چاہیے اور پیغمبر امن و امان لائڈ جارج کے یہ الفاظ کے ’’ہم نہ ہم اس غرض سے لڑ رہے ہیں کہ کہ ترکی کو اس کے دارالسلطنت ایشیائے کوچک اور تھریس کی زرخیز اور مشہور سرزمینوں سے جہاں ترکی نسل کا عنصر غالب ہے محروم کر دیا جاۓ‘‘۔ کیا ہوئے کہ ترکی کے فنا کرنے پرمصمم ارادہ کر لیا گیا ہے؟ مسلمانوں کو شدید غصہ کے ساتھ اس پر سب سے زیادہ حیرت ہے اور بجا طور پر ہے! لیکن واقف کار بخوبی جانتے ہیں کہ معاملہ کی اصلیت کیا ہے اور ترکی کی بربادی کا یہ آخری موقع یورپ کو کتنی تمناؤں، منتوں اور کوششوں کے بعد حاصل ہوا اور اس نے کس کس طرح اس سلطنت کی چولین ڈھیلی کی ہیں کہ اب اسکا لاشہ محض اسکے رحم پر پڑا ہے! اس داستان کے معلوم کرنے کے لیے تماشہ گاہ عالم کے کئی پردے الٹنا اور دو صدی پیشتر کا مرقع پیش نظر کرنا پڑے گا۔ اس میں یورپین بازی گروں کے ایسے ایسےکرتب نظر آئیں گے کہ موجودہ حیرت زائل ہو جائے گی۔
معاملات ترکی میں یورپ نے پہلا قدم وسط اٹھارویں صدی میں رکھا جب کہ مسٔلہ پولینڈ کو چھیڑ کر اور ترکی کی مسیحی بلقانی رعایا کو بغاوت پر آمادہ کر کہ روس نے ناحق دسمبر1768ء میں سلطنت عثمانیہ سے لڑائی مول لی اور جس میں اگرچہ ترکی کو شکست ہوئی اور بہت کچھ کھونا پڑا لیکن دول یورپ کی پولیسی قابل دید ہے! فرانس جو اس زمانہ میں روس کا سخت دشمن اور تقسیم پولینڈ کا شدید مخالف تھا۔ اس کا وزیر خارجہ 1769ء میں ایک سرکاری نوٹ میں اپنے حلیف کو لکھتا ہے۔ ’’فرانس کے خیال میں آسٹرین اور فرنچ اتحاد کے لئے ترکی اور رومن جنگ میں جہاں تک طول کھینچے مفید ہے تاکہ یہ دونوں یکساں کمزور ہو جائیں! جسکے بعد اگر نمانہ نے مساعدت کی تو بےشمار فوائد حاصل ہوں گے!‘‘ چنانچہ اسی خیال کے بموجب اس نے ترکی کا پہلو دیکھ کر اسے کچھہ مدد بھی دی تھی۔ آسٹریا کی پالیسی سب سے زیادہ حیرت انگیز تھی۔ یہ ایک طرف تو خود ممالک عثمانیہ پر دانت لگائے ہوئے تھا اور دوسری طرف روس کی روزافزوں بڑھتی ہوئی قوت سے خائف تھا اسی لیے کبھی وہ ترکی کا طرفدار بنتا اور کبھی روس کا۔ آخر اس نے 6جولائی 1771ء میں ترکی سے ایک معاہدہ کیا جس کا مقصد علاقہ”اخلاق“لیکر دولت عثمانیہ کی کامل حفاظت اور تقسیم پولینڈ کی مخالفت تھی لیکن ابھی اس پر با ضابطہ دستخط بھی نہ کیے تھے کہ پولینڈ کا لقمہ تر کی طمع میں بدل گیا اور روس اور پرویشا سے ساز باز کر کے 28جنوری 1772ء میں ترکی سے اپنی برئیت کا اعلان کر دیا اور جب کہ روس اور سلطنت عثمانیہ تکمیل صلح میں مشغول تھے اس نے فورا آ کر علاقہ “بغدان” پر قبضہ کر لیا جسے دول یورپ نے بنظر استحسان دیکھا اور سرویا پر قبضہ کر لیا لیکن یہ اسے ہضم نہ ہو سکا اور اپنی اندرونی بغاوتوں سے مجبور ہو کر اگست1791ء میں پھر اگلنا پڑا۔ اس دوسری جنگ میں ہالینڈ اور برطانیہ نے درمیان میں پڑ کر ترکی سے روس کو ’’کریمیا بساریبیا دریائے بوچ۔ ونسٹر اور شہراوقاکوف‘‘ کے مابین تمام علاقے دلا دیے!
انگلستان چونکہ اس زمانہ میں امریکہ اور ہندوستان کی الجھنوں میں پھنسا ہوا تھا اس لیے یورپین سیاست میں نمایاں حصہ نہ لے سکا لیکن پھر بھی روس کے ساتھ اس کی ہمدردی بلکہ طرفداری ظاہر تھی اور اس کا جنگی بیڑہ درپردہ اسے مدد دے رہا تھا۔ ترکی بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف تھا چناچہ جب انگلستان نے اپنی ثالثی صلح کے لیے پیش کی تو باب عالی نے یہ جواب دیا ’’یہ امر کس قدر حیرت انگیز ہے کہ برطانیہ اپنی ثالثی پیش کرتا ہے حالانکہ سکا بیڑہ روس کے ساتھ ہو کر ہم سے جنگ کر رہا ہے لہذا باب عالی کو یقین ہے کہ اس تجویز سے محض دشمن کا فائدہ رسانی مقصود ہے! پس انگلستان کو لازم ہے کہ اپنی پولیسی کا اعلان کر دے!‘‘۔ انگلستان کی روس کے ساتھ شرکت بالکل یقینی ہو جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ روسی بیڑے پر جب فرانس نے ضرب لگنے کا ارادہ کیا تو برٹش پارلیمنٹ نے اعلان کردیا کہ ’’روس کے برخلاف ہر کاروائی کو برطانیہ اپنی اہانت اور عداوت پر محمول کریگا‘‘۔
پرویشا البتہ ایک ایسی سلطنت تھی جس نے ترکی کو نقصان نہیں پہنچایا حالانکہ تقسیم پولینڈ کی وجہ سے روس سے اس کا اتحاد تھا اور ترکی اسکا شدید مخالفت تھا۔ چنانچہ شاہ پروشیا فرڈریک اعظم نے جب مسئلہ پولینڈکے بآسانی حل کرنے کے لیے اپنے سا تھ آسٹریا کو بھی ملانا چاہا اور اس کے دوست روس نے اس شرط پر اسے منظور کیا کہ اس اتحاد کا مقصد دولت عثمانیہ کی تقسیم ہونا چاہیے۔ تو شاہ نے اس وقت اس اتحاد ہی ملتوی کر دیا۔ 1768ء کی جنگ میں اس نے ترکی کی بڑی خدمت انجام دی۔ چنانچہ جب ’’کاترینا‘‘ ملکہ روس نے 20ستمبر1770ء کو اس کے پاس اپنی شرائط صلح روانہ کیں تو اس نے انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ ’’روس کی شرائط نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ میں ان کو ہرگز باب عالی کے رو برو نہیں پیش کر سکتا ۔ کیونکہ وہ قطعا ناقابل قبول ہیں‘‘۔ نیز اس تہدید آمیز جواب نے زارینہ کے حواس درست کر دے کہ ’’یورپ ان شرائط کو کسی طرح بھی قبول نہیں کر سکتا ان کا پیش کرنا روس کا اسٹریا پر اعلان جنگ شمار کیا جائیگا‘‘۔
انیسویں صدی آئی تو دول یورپ کی جانب سے اپنے ساتھ نئے نئے مصائب و آلام لائی جنھوں نے دولت عثمانیہ کی کمر توڑ دی۔ اس صدی میں پہلی مصیبت مسئلہ یونان سے رونما ہوئی۔ روس نے یونان سے بغاوت کرائی اور تمام یورپ خصوصا انگلستان نے اسے خوب بھڑکایا اور ترکی کو ناقابل برداشت نقصانات پہنچائے۔ یونانی بغاوت کے علم بردار اسکندر ابسلانتی (Alexander Ypsilantis)، دمترس ابسلانتی (Demetrios Ypsilantis) اور کال وسٹریو تھے۔ جنمیں سے دو اول الذکر زار کے ملازم خاص اور تیسرا وزیر تھا۔ خود انھوں نے بھی اعلان بغاوت میں یونانیوں سے کہا تھا۔ تم ترکوں سے ڈرو نہیں کیونکہ ایک بڑی سلطنت تمہاری پشت پناہ ہے اور دشمن کی سرکوبی کے لیے موجود ہے۔ تمام یورپ کو یونان کی حمایت اور ترکی کی مخالفت پر برانگیختہ کرنیوالے مشہور انگریزی شاعر لارڈ بیرن (Lord Bayron) تھے جنھوں نے گاؤں گاؤں پھر کروغط کہا اور تمام یورپ میں آگ لگا دی۔ انکی تقلید میں فرانس کے ملک الشعراء وکٹر ہوگو (Victor Hugo) نے اور بھی تیز کر دیا۔ اس بغاوت میں یونانیوں نے مسلمانوں پر مظالم کے جو خنجر چلائے انکے ذکر سے دل ہلتا ہے۔ ان کی چشم دید شہادت خود ان ہمدردان یونان نے بھی دی ہے جو اس کی مدد کے لیے یورپ سے چل کر آئے تھے لیکن تعجب انگیز تو یہ ہے کہ یورپین حکومتوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ بلکہ الٹا اثر یہ ہوا کہ ترک ظالم ٹھرائے گئے اور گورنمنٹ زار نے باب عالی کو ایک تہدیدی نوٹ روانہ کر دیا کہ ’’باب عالی مسیحیت کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ بتائے کہ آیا وہ ایک مسیحی قوم (یونان) کو بلاچون و چرا برباد ہونے دے گی اور صلیب کے برخلاف ہلال کی تمام اہانتوں کو خاموشی سے دیکھتی رہے گی‘‘۔
یہ نوٹس گویا جدید جنگ کا پیش خیمہ تھا چنانچہ روس نے17مارچ 1826ء کو ترکی پر اعلان جنگ کر دیا۔ برطانیہ اپنی ’’ثالتی‘‘ لے کر دوڑا مگر باب عالی نے قبول نہ کی جس پر اس نے برانگیختہ ہو کر ’’ہیرو آف دی واٹرلو جنرل ولنگٹن‘‘ کو ترکی کے برخلاف روس سے متحد ہونے کے لیے پٹروگراد روانہ کیا اور دونوں سلطنتوں نے متفق ہو کر فرانس کو بھی اپے ساتھ شامل کر لیا اور 6جون 1827ء کو لندن میں یونان کے متعلق ایک معاہدہ تیار کیا۔ جس کا درحقیقت نتیجہ تھا وہ عظیم الشان تاریخی واقعہ جو ’’واقعہ ناورین‘‘ کے نام سے مشہور ہے اسی میں انگریزی امیر البحر کودرنگٹن (Edward Codrington) نے اپنے متحدہ بیڑہ سے 20 اکتوبر 1827ء کو عظیم الشان ترکی اور مصری بیڑہ (جو ترکی کی مدد کے لیے آیا تھا) کو بندرگاہ ناورین کے سامنے بلاوجہ اور بلا کسی اعلان جنگ کے برباد کر دیا۔ حجت صرف اتنی تھی کہ ایک مصری سپاہی نے ایک انگریز سپاہی کو قتل کر دیا تھا اگر یہ افترا صحیح بھی تسلیم کر لی جائے تو کیا اس کی سزا اتنی سنگین دینی چاہیے تھی؟ چنانچہ تمام دنیا نے اس حادثہ پر اظہار نفرت کیا۔ حتی کہ خود شاہنشاہ آسٹریا نے کہا ’’یہ ایک بڑی بھینٹ ہے‘‘ اور جارج چہارم شاہ برطانیہ نے کہا ’’کہ یہ ایک منحوس حادثہ ہے! خود انگلستان میں امیر البحر مذکور اور پارلیمنٹ پر لبرل پارٹی نے قیامت برپاکردی جس پر گورنمنٹ نے اس فعل سے اپنی عدم موافقت کا اظہار کیا لیکن ’’بعد خرابی بیسار‘‘ حالانکہ یقینا یہ حرکت تینوں گورتھٹوں کے اشارے سے ہوئی تھی کہ میلو الفریڈ ملیٹر نے لکھا ہے اور جیسا کہ خود امیر البحر نے اپنی گورنمنٹ کا اعلان معلوم کر کہا تھا ’’وزرا اپنی پوزیشن کے لیے میری قربانی کر رہے ہیں‘‘۔
لیکن طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ آخر میں تمام ذمہ داری ترکی کے سر تھوپی گئی اور جب باب عالی نے اپنے نقصان کا تاوان طلب کیا تو اس کا جواب اتحاد ثلاثہ سے یہ ملا کہ”یونان کو آزاد کر دو!”۔ اور جب اس نے اسے نامنظور کیا تو 26 اپریل28ء کو روس نے لڑائی چھیڑ دی۔ اب ترکی کے لیے بری ہی مشکل درپیش تھی۔ روس برطانیہ اور فرانس تین دول عظمی اسکے برخلاف تھیں۔ یونان میں آتش بغاوت بھڑک رہی تھی اور فرانس کی جرار فوجیں اس کی مدد کو پہنچ چکی تھیں مشہور ینگچری فوجیں حال ہی میں برباد ہوئی تھیں لیکن پھر بھی عثمانی شمشیر نے خوب خوب جوہر دکھائے مگر تا بکے؟ آخر ترکی کو شکست ہوئی اور 20 اگست 1829ء کو تینوں متحدہ سلطنتوں کے مطالبات قبول کرنا پڑے اور پھر چند ماہ بعد 30 فروری1830ء کی لندن کانفرنس میں اس سے یونان بالکل آزاد کرا دیا گیا۔ اسکے بعد مسئلہ مصر چھیڑا لیکن وہ بھی 13 جولائی1841ء کے معاہدہ لندن میں ترکی کے برخلاف محمد علی پاشا کے حق میں فیصل کر دیا گیا۔
اب بظاہر ترکی کے لیے کوئی خرخشہ نہ باقی رہا تھا چناچہ اس نے اندرونی صلاحات جاری کرنے کا ارادہ کیا اور سلطان عبدالمجید نے اپنا مشہور اصلاحی فرمان صادر کیا۔ اس پر یورپ کے کان کھڑے ہوئے کہ مبادا ترکی پھر سنبھل جائے۔ چنانچہ فورا ہی نئی مشکلات پیدا کی گئیں۔ مانٹینیگرو سے بغاوت کرا دی گئی اور روس’’بغدان و افلاق‘‘ کے خطوں پر قبضہ کرنے کو بڑھا اور 13 جولائی 1853ء کو باقاعدہ جنگ برپا ہو گئی۔ مگر چونکہ ان دونوں علاقوں پر روس کے اقتدار سے نگلستان و فرانس کو خاص نقصان پہنچتا تھا اس لیے ان دونوں نے بھی اسکی مخالفت کی اسٹریا و پرویشا کو ملا کر 9 اپریل 1854ء میں دنیا میں ایک کانفرنس منقعد کی اور اس میں دولت عثمانیہ کی خودمختاری اور کامل حفاظت کی ذمہ داری اپنے سر لی۔ یہ 1841ء اور 1853ء کے بعد تیسرا موقع تھا کہ دول یورپ نے اس بے کس سلطنت کی حفاظت کا وعدہ کیا لیکن اس وعدہ کی حقیقت بھی ماسبق وعدوں سے زیادہ نہ تھی۔ چناچہ باوجود غالب ہونے کہ جب پیرس میں 25 فروری 1856ء کو صلح کانفرنس بیٹھی تو اس میں ایک بات بھی ترکی کے فائدہ کی طے نہ ہوئی بلکہ اس کانفرنس کے جب قرار داد و وسال بعد ’’افلاق اور بغدان‘‘ کے علاقے اس سے جدا کر کے ایک مستقل ریاست بنا دیے گئے جو اب رومانیا میں شامل ہیں۔
اس جنگ میں انگلستان نے جو ہمدردی کی تھی اسے فراموش نہیں کیا بلکہ سلطان عبدالمجید خان نے بہ حیثیت خلیفہ اسلام کے غدر کے موقع پر مسلمانان ہند کو ایک فرمان کے ذریعہ سے انگریزوں کی اطاعت پر مجبور کر کے برطانیہ کی بہت بڑی خدمت انجام دی جسکا صلہ اس نے یہ دیا کہ ایک سال بعد (58ء) بندرگا جدہ پر انگریزی بیڑہ نے بیس کھنٹے تک گولہ باری کی حجت یہ تھی کہ وہاں چند مسیحیوں کو کی کچھ گزند پہنچا تھا حالانکہ جدہ منجملہ مقامات مقدسہ کے ہے۔
روس سے صلح ہوئے ابھی زیادہ عرصہ ہوا تھا کہ پھر 1872ء میں بوسنیا ہرزیگوینیا، مانٹینیگرو، سربیا اور بلغاریہ کو اکسا دیا گیا اور یورپین ترکی میں آتش بغاوت کے شرارے بے گناہ مسلمانوں کو تباہ کرنے لگے۔ ترکی نے اس فساد کو بآسانی فرو کر دیا اور جب بلغاریہ پائے تخت سربیا سر ہونے کے قریب ہوا تو پھر انگلستان اپنی ثالثی لے کر آپہنچا کہ ترکی چھ ہفتے کا وقفہ جنگ اور بوسنیا ہرزیگوینیا کی اندرونی خودمختاری قبول کر لے۔ باب عالی نے بجائے چھ ہفتے کے چھ ماہ تجویز کئے جسے دول نے نامنظور کیا اور لندن میں 31 مارچ 1877ء کو قرار داد کر کے حکم صادر کر دیا کہ ’’فتحمند ترکی اپنی ماتحت ریاستوں مانٹینیگرو اور سربیا سے فورا صلح کر لے اور ان کے مطالبات کے آگے سر تسلیم خم کرے ورنہ سخت کاروائی کی جائے گی‘‘۔ باب عالی نے اس فیصلہ کو بھی نامنظور کیا جس پر 24 اپریل 1877ء کو روس نے جنگ چھیڑ دی۔ تمام دول عظمیٰ اسکی پشت پناہ تھیں اور تمام یورپین ترکی اس کے دوش بدوش ترکی سے برسر پیکار۔ آخر اسے شکست ہوئی اور برلن میں 13 جولائی 1878ء کو شہرۂ آفاق کانفرنس منعقد ہونا قرار پائی۔ اس اثنا میں 4 جولائی 78ء کو برطانیہ نے ترکی سے جزیرہ قبرص اس شرط پر لے لیا کہ برلن کانفرنس میں اسکی حمایت اور کامل حفاظت کریگا۔ لیکن ذرا انگلستان کی حمایت اور کانفرنس کے فیصلہ ملاحظہ ہوں۔ (1) بلغاریہ ڈیڑھ ملین آبادی اور 64000 مربع میل کی ریاست بنائی جائے۔ (2) مقدونیہ اور ادرنہ کے مابین ایک نیم آزاد ریاست قائم کیجائے (یہ چند سال بعد بلغاریہ کے حوالے کر دی گئی۔ (3) سربیا، مانٹینیگرو اور رومانیا کامل طور پر آزاد کیے جائیں۔(4) روس کو ترکی 1400 ملین روبل تاوان جنگ ادا کرے۔ (5) ترکی کی مسیحی رعایا پر یورپ کی حمایت کی ہو گی۔ (6) بوسنیا ہرزیگوینیا اور نووی پازار آسٹریا کے حوالہ کیے جائیں۔
اس رزولیوشن کے سب بڑے موید لارڈ سابسری تھے یعنی وہی بزرگ جنھوں نے قبرص لے کر برلن کانفرنس میں دولت عثمانیہ کی حمایت اور کامل حفاظت کا حلف اٹھایا تھا۔ فاعبترو یااولی الابصار!
عجیب و غریب برلن کانفرنس ختم ہونے کے بعد امید تھی کہ اس ’’مرد بیمار‘‘ کو ذرا کراہنے کی مہلت دی جائے گی لیکن نہیں۔ روس اور انگلستان برابر اسکے دیرینہ زخموں پر نمک پاشی کرتے رہے اور بلقان و البانیا میں سازشوں کا جال پھیلتا رہا یہاں تک کہ 1881ء میں شرارے براعظم افریقہ پہونچے اور علم بردار تمدن و تہذیب ’’فرانس‘‘ نے تیونس پہ چھاپا مارا۔ حجت صرف اتنی بیان کی گئی کہ حدود جزائر پر بعض خانہ بدوش بدوؤں نے کچھ زیادتی کی تھی۔ ترکی نے پرزور احتجاج کیا۔ جس کا جواب اسے یہ ملا کہ ’’اس ملک‘‘ سے دولت عثمانیہ کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ حالانکہ تیونس ترکی کے ماتحت تھا اور خود ’’محمد صادق بای تیونس‘‘ نے امارت 1864ء کے سلطانی فرمان کے رو سے پائی تھی جسے 18 نومبر 1871ء کو ایک عظیم الشان مجمع میں خیر الدین پاشا نے پڑھا تھا مگر باین ہمہ دول یورپ اپنی ضد پر قائم رہیں اور 1881ء کو یہ ملک باضابطہ فرانس سے ملحق ہو گیا۔
تیونس کی علیحدگی پر ابھی آنکھیں خون باری کر ہی رہی تھیں کہ پھر مسئلہ مصر چھڑا۔ انگلستان پیش پش تھا۔ فرانس کو لقمہ تیونس ہضم کرنا تھا اس لیے وہ بھی خاموش رہا اور ’’تخت خدیوی‘‘ کی حفاظت کی غرض سے 14 ستمبر 1882ء کو برٹش فوجیں صلاح الدین ایوبی کے قلعہ پر نظر آنے لگیں۔ اسوقت یہ ہی وعدے تھے کہ یہ قبضہ محض عارضی ہے۔ امن و امان قائم کر کے ہم رخصت ہو جائیں گے لیکن واقعات نے یہ صورت اختیار کی کہ مصر پر دولت برطانیہ کا قبضہ ہو گیا۔مسئلہ مصر مستقل مضمون کا محتاج ہے جسے آیندہ کے لیے اٹھائے رکھتے ہیں۔
مصر کی گتھی باین خوش اسلوبی سلجھی ہی تھی ہی کہ بلقان کا خفتہ فتنہ پھر جاگا۔ امیر بلغاریہ کے حقیقی بھائی کی شادی ملکہ وکٹوریا کی صاحبزادی شاہزادی ’’الیس‘‘ سے رچی جس کے بعد ہی بلغاریہ نے 1885ء کو مشرقی رومیلی کے الحاق کا اعلان کر دیا۔ ترکی نے بہت شور و غل مچایا مگر عبث! اسکے بعد بھی اس بیمار کے بستر علالت پر برابر کانٹے بچھائے جاتے رہے یہاں تک کہ اٹلی نے طرابلس الغرب میں اْسے کاری زغم لگایا جس پر لارڈ کچنر کی مصری گورنمنٹ نے خوب ہی نمک پاشی کی۔ اس زخم کا بھی انگور بھی یہ بندھے پایا تھا کہ بلقانی ریاستیں ترکی کا حصہ بخرہ کرنے کے لیے دوڑا دی گیئں اس میں دول یورپ کا جو طرز عمل رہا وہ ظاہر ہے۔
اس تمام سرگزشت کا آخری باب جنگ یورپ ہے۔ جس میں ترکی کو جبرا دھکیل دیا گیا۔ عام اس سے کہ وہ بلا اطلاع باب عالی، جرمن جہازوں کی بدولت ہو یا ترکی نے ’’رشادیہ وعثمان اول‘‘ اپنے دو ڈریڈ ناٹون کے غم میں یہ خودکشی گوارا کی ہو۔ کچھ ہی سبب ہو۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یورپ ہی اس تباہی کا باعث اصلی ہے اور اب وہی اس کی قسمت کا آخری فیصلہ کرنے بیٹھا ہی
خود کوزہ و خود کوزہ گرو خود گل کوزہ |
پس اگر اب مسٹر ولسن و مسٹر لائڈ جارج اپنے وعدوں کو فراموش کیے دیتے ہیں تو چندان تعجب انگیز نہیں! حقیقت یہ ہے کہ یورپ بہت عرصہ پیشتر اس سلطنت کے متعلق اپنا فیصلہ صادر کر چکا ہے اور اب صلح کانفرنس میں صرف اس کا نفاذ کرنا چاہتا ہے۔ اب یہ مسلمانوں اور ترکی کے ہمدردوں کا فرض ہے کہ وہ اس فیصلہ کے ملتوی کرنے کی کوشش کریں۔
یورپ بار بار انجان بن کر ہم سے سوال کرتا ہی کہ تمہیں اس دور افتادہ قوم (ترک) اور سلطنت سے کیا مطلب کہ اس کے پیچھے اپنے کو ہلکان کرتے ہو؟ سبحاناللہ! کیا ابلہ فریبی ہے۔ تمہارے لیے تو رد ا ہے کہ بلغاریہ یا سربیا یونان وغیرہ کے لیے خون کی ندیاں بہاؤ۔ ایک یورپین کے گزند پر ہمارے مقامات مقدسہ (جدہ) کو توپوں کا نشانہ بناؤ۔ ایک پادری کے لیے غریب چین پر پل پڑو۔ ایک یورپین ہڈی پر پورے ایران کو قربان کرنا جائز سمجھو۔ اور پھر ہم سے کہتے ہو کہ تمہارا ترکوں سے کیا تعلق؟ اگر تم یہ سب دنیاوی طمع و لالچ اور ملک گیری کی ہوس میں روا سمجھتے ہو تو ہم ترکی سے ہمدردی کر کے اپنے خدائے قدوس کے فرمان کی تعمیل کرتے ہیں۔ اسلام نے ’’انماالمومنون اخوۃ‘‘کہ کر سب مسلمانوں کو بھائی بھائی کر دیا ہے اور ’’المؤمن للمؤمن کا لبنیان بشد بعضہ بعضا‘‘ نے سب مسلمانوں پر ایک دوسرے کی مدد واجب کر دی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پس کیوں نہ ایک اسلامی سلطنت کی تباہی پر ہمارے کلیجے منہ کو آئیں گے۔ خصوصا جبکہ دولت عثمانیہ ہماری گزشتہ عظمت و شان کی آخری یادگار ہے۔ صرف یہ ہی ایک حیثیت نہیں ہے بلکہ ترکی سے ہمارا رشتہ خدا نے خلافت مصطفوی کے ذریعہ سے ایسا جوڑ دیا ہے کہ وہ کبھی شکست نہیں ہو سکتا۔ یورپ کا یہ درپردہ اصرار سراسر نابل قبول اور ہمارے مذہب میں صریح مداخلت ہی کہ ہم خلافت کو استنبول سے مکہ معظمہ کیوں نہیں منتقل کر دیتے؟ مسلمانوں کو ابتک مسٹربنٹ کا یہ فرمانا یاد ہے کہ خلافت اسلامیہ مکہ میں مکین ہونی چاہیے اور خلیفہ کو آئیندہ سے محض روحانی رئیس ہونا چاہیے نہ کہ دنیاوی بادشاہ! ظاہر ہے کہ ایسا خلیفہ کسی نہ کسی مددگار کا محتاج ہوگا جو بجز انگلستان کے اور کون ہو سکتا ہے؟۔
اب رہا یورپ کا یہ خیال کہ خلیفہ کی محض روحانی حیثیت ہونی چاہیے تو یہ بھی شریعت اسلامی کے بالکل خلاف ہے۔ خلیفہ کے لیے ایک سب سے بڑی شرط یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ میں تنقیدی قوت بھی رکھے اور جو ایسا نہ ہو وہ خلیفہ بھی نہیں ہو سکتا۔ علاوہ برین کیا یورپ کی اس سے یہ کھلی ہوئی غرض نہیں ہی کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ایک انچ بھی زمین نہ رہ جائے اور وہ کامل طور پر مسیحت کے حکوم ہوجائیں؟۔ پھر یورپ کو ترکی سے مذہبی جنگ ہونے سے کیوں انکار ہے۔ خصوصا زار روس نے ترکی پر موجودہ جنگ کا اعلان کرتے ہوئے مسیحت و اسلام کا حوالہ دیا تھا (جو سب کو یاد ہو گا) اور اگر یہ جنگ مذہبی نہ بھی مانی جائے تو صلح کو یقینا مذہبی تسلیم کرنا پڑے گا۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ جرمن آسٹریا بلغاریہ پر غیظ و غضب کی بجلی اس شددت سے نہیں گرتی جس شدت سے پیچارے ترکی کے خرمن تباہ کرتی ہے۔ جرمن و آسٹریا کی فوجیں یا تو خود مختار کردی گئی ہیں اور یا اپنی سابق حالت پر قائم ہیں غیروں کو ان پر تسلط کر لینے یا ستم ڈھانے کی اجازت نہیں دیجاتی لیکن ترکی کو پارہ پارہ کر کے دوسروں کے حوالہ کرنے کی تجویزیں ہو رہی ہیں اور ستم تو یہ ہے کہ جن صوبوں میں اسلامی عنصر غالب ہی وہاں بھی مسلمانوں کے حقوق کا کوئی سوال نہیں۔ مثلا آرمینیا، کہ جس میں عیسائیوں کی تعداد مسلمانوں کے مقالبہ میں نہایت کم ہے لیکن باین ہمہ آرمنی سر آنکھوں پر بٹھائے جاتے ہیں اور مسلمانوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ یونان کو بے دست و پا ترکی پر چھوڑ دیا گیا ہے جو اسلامی آبادی میں قیامت برپا کر رہا ہے لیکن علم برداران صلح کو کوئی جنبش نہیں ہوتی۔ انتخاب حکومت کا اصول مسیحی قوموں کے ساتھ برتا جاتا ہے۔ مگر فلسطین، شام، اور عراق اس سے مسثنی ہیں۔ سب لڑنے والی غالب اور مغلوب سلطنتیں اپنے اپنے پایئہ تختوں پر یہ ستور قابض ہیں لیکن ترکی اپنے دارلسلطنت قسطنطنیہ سے نکالا جا رہا ہے۔ کون قسطنطنیہ؟ جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو جان سے زیادہ عزیز ہے جس میں اسلامی معابد کے مینار جنگل کی طرح نظر آتے ہیں جس میں جلیل القدر صحابی رسولﷺ حضرت ابی ایوب انصاری کا مزار مقدس ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس کے فتح کی بشارت خود خضور پر نورﷺ نے دی اور اس کے فاتح کو پسندیدہ ترین فاتح اور اس کی فوج کو پسندیدہ فوج فرمایا ہے۔ ہمارے اس جگر گوشہ کو ہم سے ہمیشہ کے واسطہ جدا کر لینے کے منصوبے باندھے جا رہے ہیں۔ لیکن باین ہمہ اگر یورپ کو اپنے انصاف اور بے تعصبی کا دعوی ہے تو پھر کیوں ہمارے مطالبات نہیں سنے جاتے۔ ہمیں اگر شکایت ہے تو صرف برطانیہ سے ہے۔ جس کی مرخروئی اور سربلندی کے لیے ہم مر مٹے اور وہی ترک جن کے لیے آج ہم خون کے آنسو رو رہے ہیں کل محض برطانیہ کی عزت کے لیے ہم نے ان کے خون سے زمین رنگ دی تھی۔ صرف اس خیال کی بنا پر جیسا کہ ہم سےبارہا کہا گیا تھا کہ جرمنی کو زیر کرنے کے لیے۔ نہ کہ ترکی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے!۔ مگر اب تو معاملہ ہی دگرگوں ہو رہا ہے اب جو ہماری تلوار کی ضرورت نہیں رہی تو ہماری بات بھی نہیں پوچھی جاتی۔ حالانکہ برطانیہ کو مشرک میں خصوصا مسلمانوں ہی سے ہے ان کو ناخوش کرنے کی پالیسی یقینا نا عاقبت اندیشانہ ہے کہ مستقبل خود ہی ثابت کر دیگا۔
ترکی کے متعلق ہمارے مطالبات ہر گز غیر واجبی نہیں۔ ہماری دلی تمنا تو یہ تھی کہ وہ جوں کا توں اپنی سابق حالت پر قائم رکھا جاتا۔ لیکن اگر یورپین پالیسی اس کو کسی طرح کوارا نہیں کر سکتی اور بے اختیاری کی حالت میں آتش جنگ میں گر پڑنے کی بھی اسے سزا دینا ضروری ہے جیسا کہ ہمیشہ سے اس کے معاملہ میں ہوتا رہا ہے تو کم از کم اتنا تو کیا جائے جتنا مسلمانان مقیم انگلستان اور مسلم لیگ نے پیش کیا ہے اور جس کے یہاں دہرانے اور معقول ہونے پر بحث کرنا غیرضروری ہے کیونکہ کوئی مصنف مزاج انسان اس کو غیر عادلانہ نہیں قرار دے سکتا۔ چنانچہ خود بہت سے معزز انگریز اس کی تائید کر رہے ہیں اور جس کے شکریہ سے ہر مسلم قلب لبریز ہو رہا ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اس سے کم پر ہر گز رضامند نہیں ہو سکتے جتنا کہ ہمارے لیڈروں نے پیش کیا ہے بیشک اس وقت ہم بے دست و پا ہیں لیکن مایوسی انسان کو مجنون کر دیتی ہے اور حالت جنون میں ازخود رفتہ ہوکر ہر دیوار و کوہ سے وہ اپنا سر ٹکراتا پھرتا ہے۔ ترکی کے متعلق غیر منصفانہ فیصلہ ہونے کی صورت میں ہماری یہ ہی حالت ہو جائے گی کہ ہمارے دل ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائیں گے اور برطانوی انصاف میں ہمارا عقیدہ نہ رہے گا۔
- 1مراد پیرس پیس کانفرنس جو پہلی جنگ عظیم کے بعد فاتح اقوام کی طرف سے منعقدہ کی گئی جہاں لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ (عدنان)
- 2ولسن سے یہاں مراد دوسری جنگ عظیم کے وقت امریکہ کے صدر ووڈرہ ولسن (Woodrow Wilson) ہیں۔ (عدنان)