تہذیب و مذہب کا تقاضا ہے کہ انجام کا خیال کرو۔ اور دو روزہ عیش کی ہوس میں نا پڑو۔ مگر دل کہتا ہے کہ لطف کی جو گھڑی نصیب ہو جائے اسے بے مزہ لیئے ہاتھ سے نہ جانے دو۔ رندوں نے اس آخری مسلک کو اختیار کیا۔ اور عیش پرستی کے پیچھے دنیا و عقبی دونوں کو بھول بیٹھے۔ مگر صوفی ضرورت سے زیادہ عاقبت اندیش تھے۔ دنیا کی تمام لذتوں کو چھوڑا، عیش و عشرت سے دست بردار ہو گئے۔ اور بعد والے عالم سرمدی کی مسرتوں کے شوق میں دنیا سے متنفر رہے۔ دونوں کے مختلف مذاقوں کا ماحصل یہ ہے کہ ایک دنیا میں پھنسا ہے اور دوسرا آخرت کے شوق میں دنیا کو بھولا ہوا۔ ایک آج کی مقصدوری پر کل کی امیدوں کو اور دوسرا کل کی مسرتوں پر آج کی کامیابی کو قربان کر رہا ہے۔ دونوں اپنے مقام پر خوش اور مطمئن ہیں۔ اور دوسرے کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

لیکن غور سے دیکھو تو بنی نوع انسان کو دونوں نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایک اگر دنیا کے مزے لوٹ رہا ہے تو آِخرت سے دست بردار ہو کر۔ دوسرا اگر فلاح آخرت کا شائق ہے تو دنیا کو ہاتھ سے کھو کر۔ یہ دونوں غلطی پر ہیں۔ دونوں گھاٹے میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور دونوں اسی غلطی میں مبتلا ہیں جس نے ہزاروں سال تک دھوکے میں رکھا۔ اس لیے کہ اگلے تمام سلاطین و اہل مذاہب اس مذاق میں ڈوب کر مسلسل نقصان اٹھاتے رہے۔ بادشاہوں نے رندانہ مشربی اختیار کی تو دینداروں نے صوفی گری۔ پہلوں کو دنیا سے غرض تھی تو دین سے خارج تھے اور دوسروں نے عقبی سے سروکار رکھا تو دنیا سے بے پروا ہو کر۔

اسلام کا دنیا میں آنا دراصل اس غلطی کے مٹانے اور اسی نقصان کے دور کرنے کے لیے تھا۔ اسلام نہ یہ کہتا ہے عیش دو روزہ دنیا کو چھوڑو اور نہ یہ کہتا ہے کہ فلاح آخرت کی طرف سے بے پروا ہو جاؤ۔ اس کے اصول سے نہ دنیا آخرت کہ ضد ہے اور نہ آخرت دنیا کے خلاف۔ اس کا دعوی ہے کہ’’الدنیا مزرعتہ الاخرہ‘‘جس کے معنے اور کوئی چاہے کچھ سمجھے ہم تو یہ سمجھتے ہیں۔ کہ اگر تم نے دنیا کی کھیتی درست کر لی تو آخرت میں بھی اچھے رہو گے۔ یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ’’دنیا اچھی ہے تو عقبی بھی اچھی ہو گی‘‘۔ خلاصہ یہ کہ اسلام دنیا اور آخرت دونوں کے سدھارنے اور سنوارنے کو آیا ہے۔ اس کے فیصلے کے مطابق دنیا ہی کی اصلاح سے عقبی کی اصلاح ہوئی ہے اور عقبی ہی کی غرض سے دنیا درست ہوتی ہے۔ اس بات کو لوگ مدت تک نہیں سمجھے مگر یہ کوئی عقل کی بات نہ تھی کہ خدا نے بھیجا تو دنیا میں ہے اور مقصد یہ ہے کہ اس کو چھوڑ دو۔ چھڑانا تھا تو پھر بھیجا کیوں؟

مگر اگلے بزرگوں اور آج کل کے بھی بہت سے مقطع و فرشتہ صورت صالحوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ دنیا و عقبی کی اصلاح ایک ساتھ کیسے ہو سکتی ہے۔ ظلمت و نور کا ساتھ کیسا؟ اور عالم ظلمت میں منہمک ہونے سے انسان عالم نور میں کیسے اچھا رہ سکتا ہے؟ یہ ظلمت و نور کے استعارے خود تم نے اپنے قدیم مذاق روحانی سے ایجاد کر لیے ہیں۔ ورنہ حقیقت واقعیت کی نظر سے دیکھو تو وہی ٹھیک نظر آتا ہے جو ہم نے کیا اور جو اسلام کی اصلی تعلیم ہے۔

اسلام کیا کہتا ہے۔ کہتا ہے کہ دنیا میں جس طرح بنے اوج و عروج پیدا کرو۔ ہر طرح کی حسرتیں حاصل کرو۔ ہر قسم کا لطف اٹھاؤ۔ اور دور روزہ عیش کے مزے ہاتھ سے نہ جانے دو۔ دولت جمع کرو۔ سامان عیش فراہم کرو۔ سلطنت و حکومت حاصل کرو۔ ملکوں اور قوموں پر جہاد اور فرماں روائی کرو۔ حسین سے حسین اور مہ جبین سے مہ جبین پری وشوں کو اپنی معشوقہ و محبوبہ بناؤ۔ جادو نگاہ کنیزوں اور حرموں سے اپنے کاشانہ عیش کو رونق دو۔ لذیز سے لذیر غذا کو قوت جان بناؤ۔ اور لطیف س لطیف خوشبو سے دماغ کو ترو تازہ کرو۔ اور اگرچہ زندگی تھوڑی ہے مگر دو روزہ عیش کے سامانوں میں سے کوئی رہ نہ جائے۔ لیکن ان سب لذتوں اور عیش کے سامانوں کو خدا کی دی ہوئی نعمتیں تصور کر کے شکر اور خدا ترسی کے ساتھ برتو۔

شکر و خدا ترسی کیا ہے؟ یہ کہ شکریہ میں ہر روز تھوڑا مقررہ وقت خدا کی یاد میں صرف کرو۔ اور خدا کے خوف سے ہر لذت کے حاصل کرنے اور برتنے میں تمھارا قدم حد اعتدال سے باہر نہ ہونے پائے۔ تم سے کسی کو آزار نہ پہنچے۔ نعمتوں کو نا جائز یا ظالمانہ و غاصبانہ طریقوں سے نہ حاصل کرو۔ اور ان سے لطف اٹھاتے وقت شکستہ حال محتاجوں اور مصیبت زدہ ستم کشوں کو نہ بھولو۔ آپے سے باہر نہ ہو کہ برے بھلے اور عدل و ظلم کا امتیاز نہ باقی رہے۔ اگر خدا ان نعمتوں سے محروم کر دے تو صبر و شکر سے کام لو اور حرف شکایت زبان پر نہ آئے۔ یہی صبر و شکر یہی اعتدال و انصاف۔ اور یہی صبر و قناعت جنت کے دروازے کی کنجی ہے۔ اور ان احتیاطوں کے ساتھ تمھاری زندگی دنیوی کا عیش دو روزہ ہی آخرت کے ابدی عیش کا ذریعہ بن جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *