سچ یہ ہے کہ ہمارے جو شعرا تصوف کے دعوائے ترک دنیا سے دھوکا پاکر لوگوں کو لذت ہائے دنیوی سے روکنے لگے انھوں نے نجات کا سچا راستہ نہیں دکھایا بلکہ اور بھٹکا دیا۔ مگر ہاں جن فطرت پرستون نے رندوں کی طرح یہ کیا کہ کوئی گھڑی بے عیش کے نہ گزرنے پائے۔ خوشیاں مناؤ، اور مزے اڑاؤ، وہی کچھ سیدھے راستے پر تھے مگر افسوس ہم نے انکی قدر نہ کی۔ یونانیوں کے فلسفیوں کا جو گروہ دنیا پرستی سکھاتا تھا وہ ان لوگوں سے اچھا تھا جو دنیا چھڑاتے تھے۔ اور آج بھی ہم میں جو لوگ رند مشربوں کی طرح عیش دنیا سے بہرہ یاب ہونے کی تلقین کرتے ہیں ان سے، اچھے ہیں جو دنیا چھوڑنے کو کہتے ہیںغ۔

اس صحیح نتیجہ تک نوح انسان کو سب سے پہلے اسلام نے پہنچایا تھا۔ مگر افسوس کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں ہی میں عیسائیوں ہندوؤں اور پارسیوں کے فلسفہ آگہی نے ان کی دینی تعلیم پر غالب آکر مسلمانوں کو اپنے اصلی دین سے غافل کر دیا۔ اور مسیحیوں نے جو ترک دنیا کے تاریک سمندر میں غوطے کھا رہے تھے ہماری ان تعلیموں کو اختیار کر کے ترقی دنیا کی طرف توجہ کی تو وہ حیرت انگیز کمالات دکھا دیے کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔ یہ کلیں، یہ ریلیں، یہ ہوائی جہاز اور یہ سائنس کے معجزانہ انکشافات سب اسی تعلیم کی برکت ہیں جس کا سبق تو قرآن کے مکتب نے دیا تھا مگر عمل کرنے والے انجیل کے پیرو تھے۔

مگراس’’وضع الشی علی غیر محلہ‘‘ سے دنیا والوں کو ایک بہت بڑا نقصان پہنچ گیا جو نہایت خطرناک ہے اور اب اس کا دور ہونا بہت دشوار بلکہ غیر ممکن نظر آتا ہے۔ تعلیم چونکہ دراصل اسلام سے حاصل ہوئی تھی اس لیےاس کو اصول و عقائد اسلام سے فطری مناسبت تھی۔ اگر اصلاح عالم کی غرض پیروان اسلام کے ہاتھ سے پوری ہوتی تو لوگ پورے پورے دیندار اور خدا پرست رہ کر اس کام کو پورا کرتے۔ اور سائینس چاہے کیسے ہی کرامات و خوارق عادات دکھاتا، خدا پرستی کا نقش دلوں پر سے نہ مٹتا۔ برخلاف اس کے مسیحیت چونکہ اصولا روحانیت اور بت پرستوں کے فلسفہ روحانی کے جال میں پھنسی ہوئی تھی اس لیے اس کو ان دنیا داری و دنیا دارانہ نفس پرستی کی باتوں سے کوئی ذاتی علاقہ نہ تھا۔ اس کے عقائد و اصول کا جوڑ ان چیزوں سے نہیں بیٹھتا اور اس کا انجام یہ ہے کہ دنیا جس قدر ترقی کرتی جاتی ہے اور سائینس جو جو جدید انکشافات کرتا جاتا ہے، اسی قدر مذہب کمزور پڑتا جاتا ہے۔ مسیحیوں نے اصول اسلام سے سیکھ کر دنیا داری تو بے شک اچھی طرح سیکھ لی مگر ان کا مذہب ان کے دلوں پر اپنی گرفت نہ باقی رکھ سکا۔ چنانچہ تمام باکمالان یورپ اور ان کے پیرو لا مذہب اور خدا کو بھولے ہیں۔

یہی کام اگر امت اسلام کے ہاتھ سے انجام پاتا تو یہ تو یہ لا مذہبی کا نتیجہ نہ پیدا ہوتا۔ اور جن متعدل خدا پرستی و تہذیب کی تعلیم اسلام نے دی ہے وہ سائینس کے مقابلے میں ہرگز کمزور نہیں پڑ سکتی تھی۔

ہم کو مسیحیوں پر حسد نہیں۔ ان کی ترقیاں دیکھ کر خوش ہوتے بلکہ انکی پیروی کرنے کو تیار ہیں۔ مگر یہ صدمہ ہمارے دل سے دور نہیں ہو سکتا کہ ان کے ہاتھ سے دنیا کو جو ترقی حاصل ہو رہی ہے وہ مذہب کو مٹائے دیتی ہے اور وہ سچی الہی تہذیب جس کی گرفت دلوں پر تمام دینوی تہذیبوں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے صفحہ زمین پر سے فنا ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ لیکن اگر ہم گمراہی میں پڑکے فرض کونہ بھولتے اور حضرت مخبر صادق صلعم کی ہدایت کے مطابق سرگرمی سے اس کام کو شروع کر دیتے تو دنیا بھی ترقی کرتی اور عقبی بھی نہ خراب ہونے پاتی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *