انگریزوں کو چونکہ کہ ایک جہازران قوم بننا اور جہازرانی میں نام پیدا کرنا تھا۔ اس لئے قدرت نے اس مقصد کے حصول کے اسباب اُن کے گردو پیش ڈالدیئے۔ اول تو اُن کو پیدا کیا ایسی جگہ جس کے چاروں طرف پانی ہو۔ دوسرے پانی کی محبت اُن کے دل میں پیدا کر دی۔ ہندوستان کے ان حصوں کے باشندے جہاں سمندر تو ایک طرف دریا بھی بہت قریب نہیں ہوتے ۔ اور بڑے سے بڑا پانی کا ذخیره گانو کا تالاب اور بہتر سے بہتر نہانے کا موقعہ نہر کی شاخ ہوتی ہے ۔ کیا جانیں۔ کہ انگریزوں کی زندگی میں پانی کے قریب رہنے۔ بلکہ اکثر پانی کے اوپر یا پانی کے اندر رہنے نے کیسا انقلاب عظیم پیدا کیا ہے اُن کی جرات۔ ہمت۔ چستی اور اعصابی قوت میں اس جزو کا کتنا اثر ہے۔ بابر بادشاہ کا ایک قول مشہور ہے۔ کہ جب وہ ہندوستان میں آیا تو اُسے سب سے زیادہ حیرت یہ دیکھ کر ہوئی ۔ کہ اگر کوئی ہندی امیر اتفاق سے دریا کے کنارے خیمہ لگاتا تھا۔ توعموماً اس خیمےکی پشت دریا کی طرف ہوتی تھی۔ اور بابر اور اس کے ہمراہی پانی کے نظارے پر مرتے تھے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر پانی کے کنارے ڈیرے ڈالتے تھے۔ اور لب دریا بیٹھ کر روانی آب کے مزے لیتے اور داد کامرانی دیتے تھے۔
مزاج کے اس قدرتی فرق نے جو بظاہر مذاق کا ایک معمولی فرق معلوم ہوتا ہے ۔ قسمتوں میں اتنا فرق ڈال دیا ۔ کہ بابر اور اس کے ہمرا ہی حاکم بنے اور دریا کی طرف پیٹھ موڑ کر بیٹھنے والے محکوم۔ جب تک بابر کی نسل ہندوستان میں حکمراں رہی۔ اُن میں اپنی جد کے مزاج کا وہ حصہ برابر موجود رہا۔ زمانے نے اُن کی طبیعتوں میں کئی انقلاب پیدا کئے نئی نئی ملکی رسوم نے اُن کے ہاں دخل پایا۔ زبان بدل گئی۔ مگر ہائے رے پانی کے نظارے کا عشق! یہ وہ سودا تھا کہ دماغ سے نہ گیا۔ محل بنائے تو دریا کے کنارے سر بفلک قلعے تعمیر کئے تو لب دریا۔مسجدیں بنائیں تو پانی کے قریب اور اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ مر کر بھی اس شوق سے چھٹکارا نہ ہوا۔ مقبرے کے لئے بھی قرب آب کی جستجو ہوئی۔ یہی مذاق جہانگیر کو آئے دن سفرکشمیر پر آمادہ رکھتا تھا اور اسی مذاق کا اثر شاہجہان کے شوق تعمیر کے ساتھ جلوہ گر تھا۔ کاش انہیں کوئی سمندر کا بھی مزا چکھا دیتا۔ اور ہمیشہ اندرون بر پانی کے چھوٹے چھوٹے تختے تلاش کرنے کی بجائے پہنائے بحر سے اُن کی آنکھ آشنا ہو جاتی۔ تو عجب نہیں اُن کے خاندان کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ یہ باتیں معلوم تو خفیف ہوتی ہیں۔ مگر ان کا اثر قومی خصائل پر قدرت کے بعض باریک قوانین کے متعلق ہے جو مشکل سے سمجھ میں آسکتے ہیں۔ مگر جو اپنے نتائج دکھائے بغیر نہیں رہتے۔
انگلستان میں اگر کسی مسافر نے انگریزوں کی آب پرستی کو نہیں دیکھا تو وہ یہاں کی زندگی کی آدھی بہار سے محروم ہے۔ اس کا سب سے پہلا ثبوت تو یہاں کے شہروں کی آبادی کی طرز میں ملتا ہے ۔ لندن ہی کو لیجئ ۔ دریائے ٹیمز اس کی آدھی رونق ہے۔ شہر کے بیچ میں بل کھاتا ہوا جارہا ہے اور دریا کے اس پار اور اُس پار دونوں طرف آبادی ہے۔ ہندستان میں کشمیر والے چاہیں تو سرینگر میں ایک چھوٹے سے پیمانے پر یہ نقشہ پیدا کر سکتے ہیں۔ مگر انہیں مقامی جھگڑوں سے کہاں فرصت۔
لندن کے بہت سے بڑے بڑے مقامات لب دریا واقع ہیں۔ پارلیمنٹ کی پرانی مگر شاندار تعمیر کی بنیاد کو تو ٹیمز ہر وقت بوسہ دے کر گذرتا ہے ۔ اُن کا تو ذکر ہی کیا۔ کئی اچھے کلب گھر اور ہوٹل ایسی جگہ بنائے گئے ہیں۔ کہ اپنے کمروں میں بیٹھ کر کھڑکی سے آب رواں کی بہار لوٹیے۔ لندن سے باہر علاقے میں دیا کے کنارے کنارے سفر کرو اور منبع کی طرف چلو تو دونوں طرف آبادی چلی جاتی ہے۔ اور کئی گھر تو ایسے ہیں کہ اُن کے باغ سے نکل کر چار سیڑھیاں اتریں تو دریا میں جا پہنچیں۔ وہاں ان گھروں کے رہنے والے موسم گرما میں کرسیاں بچھا کر بیٹھتے ہیں اور گزر آب کا تماشا کرتے رہتے ہیں۔ سیڑھیوں کے نیچے ہر ایک صاحب توفیق کا ڈونگا بندھا رہتا ہے۔ تا کہ جب جی چاہا اترکر دریا کی سیر کو نکل گئے۔
کشتی کو کہینے کے لئے کشمیر کی طرح نوکر نہیں رکھتے۔ بلکہ اچھے اچھے امیر خود اپنے ہاتھ سے کہیتے ہیں۔ عور تیں ساتھ ہوں ۔ اور عموما ہوتی ہیں۔ تومرد کا فرض ہے کہ انہیں تکلیف نہ دے۔ بلکہ خود کہینا فخر سمجھے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عورتیں اپنی تفریح یا ورزش کے لئے خود کہیناچاہتی ہیں اور اسی شوق اور دیگر مردانہ ورزشوں اور کھیلوں میں ان کی حیرت انگیز نمو اور تندرست اور بشاش چہروں کا راز چھپا ہے۔
انگلستان کا قریب قریب ہر بڑا شہر یا سمندر کے کنارے یا کسی دریا کے کنارے آباد ہے۔ یہاں کے دونوں مشہور تعلیمی مرکز کیمبرج اور اکسفورڈ اسی کلیہ کی مثالیں ہیں۔ گو دریائے کم جس سے کیمبرج کا نام نکلا ہے۔ ایک چھوٹی سی ندی ہی تاہم کمبرج کی خوبی میں اس کا کچھ کم حصہ نہیں۔ اکثر کالج لب دریا بنے ہیں۔ اُن کے کتب خانوں میں بیٹھے دریا کی طرف جھانک لو اور جی چاہے تو عقب کالج جا کر چند سیڑھیاں اتر جاؤ اورکشتی چلانے لگو۔ یہ نمونہ شمالی انگلستان بلکہ سکاٹلینڈ تک چلا گیا ہے اور اہل برطانیہ کا یہ شوق ہر جگہ ظہور پذیر ہے ۔ ہمارے ہاں صوبجات متحدہ آگرہ داودہ میں چند شہرگنگا اور جمنا کے کنارے واقع ہیں۔ اور دو تین میں کچھ حصہ آبادی کا عین لب دریا تک پہنچ گیا ہے۔ مگر دوسری طرف عموما خالی ہے۔ اور دریا کے وجود سے ہرگز اتنا یا اس قسم کا فائدہ نہیں اُٹھایا جاتا۔ اگرکوئی چیز کس کو دریا کی طرف کھینچتی ہے تو مذہبی شوق یا مذہبی فرض۔ اور دریا کی توقیر محض اس لئےکہ وہ قدرت کا ایک دلچسپ اور دلکش کرشمہ ہے۔ اس سے مستفید اور محفوظ ہونا ہمارا استحقاق ہے، بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے ۔
دریاؤں اور اُن کی سیر کی عمومیت کا ذکر تو اہل انگلستان کے شوق نظارہ آب کے ضمن میں آگیا۔ مگر ہمارا اصلی مقصود تو اُس شغف کا بیان کرنا ہے جو یہاں کے باشندوں کو سمندر اور اس کے کنارے کی سیر کے متعلق ہے۔ ساحل کی سیر یہاں ضروریات میں سمجھی جاتی ہے۔ اور ساحل پر پنہچ کر جو طریق زندگی اختیارکیا جاتا ہے وہ اندرون ملک کے شہروں کے طریق روز مرہ سے بہت کچھ جدا ہے۔ مثلاً سفر میں خموشی اور بلا تعارف کسی سے گفتگو کرنے سے پرہیز انگریزوں کے مشہور خواص میں ہے۔ وہ اصحاب جو ہندوستان میں ریل گاڑی میں بیٹھتے ہی ہمسفر سے مخاطب ہو کرسوالات بے پایان کا دفتر کھولنے کے مادی ہیں۔ سخت گھبرائیں۔ اگر انہیں یہاں کسی انگریز کا ہم سفر ہونا پڑے۔ گھنٹوں کا ساتھ ہے۔ مگر ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کرتا۔
لیکن ساحل کی سیر میں یہ قاعدہ ٹوٹ جاتا ہے۔ وہاں شخص تفریح کے لئے یا شوق صحت میں جاتا ہے۔ کاروبار سے فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اور دن بھر کاٹنا ہوتا ہے۔ پس سب کی آسانی کے لئے یہ اصول قرار پا گیا ہے کہ اگر وہاں کوئی کسی سے بلا تعارف بھی بات چیت شروع کر دے تو مضائقہ نہیں۔ تھوڑی سی ملاقات ہوئی۔ تو مل کرسیر کو نکلنا۔ اکٹھے کشتی میں جانا یا اکٹھے نہانے جانا شروع ہو جاتا ہے۔ اور اس میں بے تکلف بات چیت کا سلسلہ قائم ہوجاتا ہے۔ اس سیر کامزا دیکھنا ہوتو موسم گرمامیں دیکھو ۔ یہ پانی کے کیڑے سمندر میں یوں پیرتے پھرتے ہیں۔ جیسے بڑی بڑی سفید مچھلیاں۔ تھوڑی بہت مشق تو ہر زن و مرد بچے بوڑھے کو ہے۔ مگر بعض تو کمال کرتے ہیں۔ شرطیں بد کے میلوں تک پیرتے نکل جاتے ہیں۔ اگر سینکڑوں پیر رہے ہیں تو ہزاروں کنارے پر بیٹھے تماشا دیکھتے ہیں۔ ساحل بحر کی سادگی وضع کی یہاں انتہا ہو جاتی ہے۔
اچھی اچھی تعلم یافتہ لیڈیاں اپنی اچھی پوشاکوں سمیت اور ان کی خوشپوش ہمراہی جنٹلمین کنارے کے ریتے پر جو بیشمار چھوٹے چھوٹے کنکروں سے ڈھپا ہوتا ٹہلتے جاتے ہیں۔ نہ کپڑوں کے خراب ہونے کی پروا ہوتی ہے۔ نہ اس طرح زمین پر بیٹھنے میں کوئی کسر شان سمجھی جاتی ہے۔ بچے ایک دوسرے پر کنکر برساتے ہیں اورسمندر کی ہوا میں کچھ ایسی روح افزائی ہے کہ بڑے بوڑھے بھی دم بھر کے لئے بچے بن جاتے ہیں اور اس کھیل میں شریک ہو لیتے ہیں۔ جہاں یہ ہجوم ہوتا ہے۔ وہاں کشتیوں والے آکر شور مچاتے ہیں اور لوگوں کو کشتی کی سیر کے لئے بلاتے ہیں۔ جن لوگوں کو کشتی چلانے کی مشق ہےوہ یہاں بھی کشتی کرایہ کر کے اور اپنے دوستوں کو ساتھ لے کر اسے خود چلاتے ہیں اور جنہیں پوری مشق نہ ہو ۔ یا ساری کشتی نہ لے سکیں وہ کشتی بان کی خدمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کوئی شوقین ہیں کہ کنارے پر بیٹھے ہوئے آتی جاتی کشتوں کی تصویر لے رہےہیں۔ کوئی صاحب مچھلی پکڑنے کے جال یا کانٹے لیکر کشتی میں جاتے ہیں اوراس شغل سے اپنا جی بہلاتے ہیں۔ غرض دُور تک کنارے پر اسی طرح رونق چلی جاتی ہے۔ بعض مقامات ایسے سیر حاصل بنائے گئے ہیں۔ کہ دھوپ کے وقت کے لئے کنارے کے قریب سایہ دار سڑکیں اور روشیں موجود ہیں۔ جہاں لوگ چل پھر سکتے اور بیٹھ سکتے ہیں۔ آبادی بلندی پر ہے اور اسکی حفاظت یا تو قدرت نے ہی چٹانوں کے ذریعے کر دی ہے۔ یا صنعت نے بڑے بڑے مضبوط بند بنا دیے ہیں۔
اس بلندی پر کنارہ بجر کے متساوی ایک سڑک ہوتی ہے۔ جو سیر کے دنوں میں صبح شام مرجع انام ہوتی ہے۔ اس سڑک پر باجے کی جگہ بنی ہوتی ہے۔ جہاں لوگ بیٹھ کر باجا سنتے رہتے ہیں ۔ یا اور تماشے ہوتے رہتے ہیں۔ جنہیں ٹکٹ دیکر دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ان تماشوںمیں اکثر عوام کا جمگھٹ رہتا ہے۔ معقول پسند لوگ قدرت کے تماشوں اورکھلی ہوا کو ان مشاغل پر ترجیح دیتے ہیں۔ سائل بجر پر اکثر بھوک خوب لگتی ہے۔ اور وجوہ اس کے ظاہر ہیں۔ کام سے نجات صیحت بخش آب و ہوا۔ اس پر ورزش و تفریح ۔ پھر سوائے کھانے کے اور کیا سوجھے۔ وہاں کے جو مقیم ہیں ۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں جنکی وجہ معاش یہی ہے ۔ کہ سمندر کے نظارے کے شائیق جو آئیں۔ اُن کے قیام کا انتظام کریں۔ ان گھروں میں بعض اوقات عجیب مجمعے ہوتے ہیں شہروں سے ہر مذاق اور ہر فن کے لوگ آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر چند مختلف معنوں کے ماہر اتفاق سے ایک گھر میں جمع ہو جائیں۔ تو شام کو کسی تماشا گاہ میں تفریح کے لئے جانے کی ضرورت نہیں رہتی گھر کا کمرہ ہی ایک تماشا گاہ بن جاتا ہے۔ جس میں ہر شخص اپنا کمال دکھاتا اور اپنے رفقا کی تفریح کے سرمائے میں اپنا حصہ دیتا ہے۔
عام دستور ان گھروں کا یہ ہے۔ کہ صبح کو وقت مقررہ پر جب ایک میز پر چاشت کھاتے ہیں۔ اسی میں ہرشخص اپنے اپنے رفقا سے تصفیہ کر لیتا ہے۔ کہ کہاں کی سیر ہو۔ اسی قرار داد کے مطابق باہر نکلتے ہیں اور پھر دوپہر کے بعد کھانے پر جمع ہوتے ہیں۔ ہر ایک اپنے حالات کہتا ہے اور ایک دوسرے سے پوچھتا کہ آپ نے آج کیا کیا دیکھا اور کس مشغلے میں وقت گزارا اور اخلاق میں داخل ہوتا ہے۔ کوئی کہتا ہے۔ میں تو سارا د ن پانی رہا۔یعنی کشتی کی سیر کی۔ کوئی بتاتا ہے ہم تو دو گھنٹے پانی میں رہے۔ یعنی نہاتے تیرتے اور غوطے لگاتے رہے۔ کوئی بیان کرتا ہے۔ ہم تو گاڑی پر بیٹھ کر کنارے ہی کنارے کئی میل تک سواری کو نکل گئے تھے۔ کسی نے کنارے کے کنکروں پر وقت گزارا۔ اور کسی نے سایہ دار سٹرکوں کی سیر کی۔
مگر ان سب بیانوں میں مشرقیوں کے لئے بہت کچھ تعجب خیز بیان وہ ہے جو بہت سے پر رونق ساحلی مقامات میں عام ہوتا جاتا ہے۔ اور جس کا نام ”مکسڈ بیدنگ” یعنی غسل مخلوط رکھا گیا ہے۔ ہر شخص سوال کرتا ہے۔ کہیے کہ مکسڈ بیدنگ میں گئے تھے یا نہیں۔ اور کہتا ہے ہم گئے تھے ہمیں تو بڑا لطف آیا۔ اس میں زن و مرد یکجا نہاتے ہیں۔ نہانے کے کپڑے خاص بنے ہیں۔ جو مردوں کے لئے ہیں۔ وہ صرف وسط بدن کو ڈھانپتے ہیں اور جو عورتوں کے لئے ہیں وہ وسط بدن اور سینے کو۔ باقی سارا بدن ننگا ہوتا ہے اور اس ہیئت کذائی میں یہ مدعیان شائستگی دریا میں کود پڑتے ہیں۔ غیر مرد اور غیر عورتیں۔ جان نہ پہچان۔ پاس پاس نہا اور تیر رہے ہیں۔ غوطے لگا رہے ہیں۔ اور اس حالت میں ایک دوسرے پر پانی پھینک دینا یا آپس میں ہنس بول لینا کچھ ایسا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ چاہے پانی سے نکل کر کپڑے پہنتے ہی پھر ایک دوسرے سے بیگانے بن جائیں۔ جیسے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ ہمارے خیال میں یہ دستور یا تو انگلستان کے زمانہ جاہلیت کا بقیہ ہے۔ جو اب پھر تازہ ہونے لگا ہے۔ یا اس خوفناک سرعت رفتار کا نتیجہ ہے جس کے ساتھ عورت کی آزادی کی رو مغربی دنیا میں چل رہی ہے۔بہر حال یہ حصہ ساحل کے مشاغل کا ہر گز اس قابل نہیں ۔ کہ کوئی اس کی نقل کرنا چاہے۔ گو یہاں یہ کیفیت ہے کہ جن مقامات میں یہ مروج ہے۔ وہاں کے ہوٹلوں والے اخبارات میں اُس مقام کے قدرتی نظاروں اورصحت بخش اثرات کا ذکر کرتے ہوئے ترغیب کے لئے یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ یہاں غسل مخلوط مروج ہے۔
دوپہر کا کھانا ختم کرتے ہی لوگ پھر گھروں سے نکلتے ہیں اور اسی طرح اپنی اپنی پسند کےمشغلوں میں وقت بسر کرتے ہیں۔ کوئی ذوق مطالعہ میں سرشار ہوتے ہیں۔ کتاب لے کر دور نکل جاتے ہیں۔ جہاں آمد و رفت تو ہو کم ۔ مگر جنگل بھی نظر آئے۔ سمندر بھی نظر آئے اور ہوا بھی صاف ہو۔ گھاس پر بیٹھ جاتے یا لیٹ جاتے ہیں اور کتاب پڑھتے رہتے ہیں۔ کوئی ایسے ہوتے ہیں کہ اور کوئی نہ ملا تو کتاب لے لی۔ مگر زندہ یا حاضر جلیس کو مردہ یا غائب جلیس سے قابل ترجیح سمجھتے ہیں۔ غرض ’’ہر سرے و ہر سودائے‘‘۔ ہر ایک اپنی دھن میں لگا ہوتا ہے۔ اور اس تفریح کے جتنے دن ملیں انہیں غنیمت سمجھتا ہے۔ کئی مہینوں رہتے ہیں کئی ہفتوں۔ مگر ایسا تو کوئی ہی خدا کا مارا ہوتا ہو گا۔ جو چند دن کے لئے سمندر کی ہوا سے اپنا دماغ تازہ نہ کر آئے۔
یہ تو تھی گرما کی کیفیت۔ مزا یہ ہے کہ امرا اور خوشحال لوگ سرما میں بھی وہیں جاتے ہیں۔ گرچہ کہ سرما میں وہ چہل پہل اور وہ رونق نہیں ہوتی۔ پھر بھی جو لوگ شہروں کی دھند اور غبار سےگھبرا جاتے ہیں اور سردی کی کثرت سے تنگ آتے ہیں۔ وہ ساحل بحر کو غنیمت سمجتے ہیں۔ جہاں دھند سے عموما بخات ہوتی ہے اور جہاں انگلستان کے جنوبی حصے میں جاڑے میں بھی آب و ہوا معتدل سی رہتی ہے۔ اسی لئے جنوبی ساحل کو ’’سنی ساؤتھ‘‘ یعنی آفتاب سےروشن جنوب کہتے ہیں۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ بہار انگلستان میں جنوبی دروازے سے داخل ہوتی ہے۔ جن کے پاس دولت یا فرصت اس قدر ہے کہ انہیں سال بھر میں سوائے موسموں کے تغیر پر خوشی یا افسوس کرنے کے کچھ کام نہیں۔ وہ بہار کے خیر مقدم کے لئے جنوب کو تشریف لے جاتے ہیں۔ مصروف اور محنتی اصحاب چاہے ایسی مسلسل تفریح کو نظر حقارت سے دیکھیں۔ مگر انگلستان کی مجموعی تمدنی حالت کے بنانے میں ان بظاہر بیکار لوگوں کا بھی حصہ ہے۔ اور عیب چاہے ان میں کتنے ہوں۔ ان کی اس خوبی سے انکار نہیں ہو سکتا ۔ کہ سمندر اور پانی کے دلدادہ ہونے میں یہ اپنی قوم کے کسی دوسرے حصے سے کم نہیں اور کھیل ہی کھیل میں اتنی مہارت بہم پہنچائے ہوئے ہیں۔ کہ ضرورت کے وقت کسی ڈوبتے کو بچانے ۔ کسی گرتے کو سنبھالنے کے لئے بھی اسی آسانی سے پانی میں کود پڑتے ہیں، جس سے اپنی تفریح کے لئے غوطہ زنی کرتے ہیں۔ اور جب تک انگلستان کی بڑائی بحری طاقت پر منحصر ہے اُس وقت تک قوم میں اس عام مذاق کو قائم اور تازہ رکھنے والے بیکار نہیں سمجھے جاسکتے۔
کچھ عرصہ ہوا ۔ یہاں البرٹ ہال میں ایک بڑا جلسہ تھا۔ جس میں ایک مشہور یتیم خانے کی کئی سو لڑکیاں اور کئی سولڑکےموجود تھے۔ لڑکوں کا ایک گروہ بحری وردی پہنے ہوئے قواعد کرتا ہوا حاضرین کے سامنے آیا۔ اور چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کے ایک گروہ کثیر نے ننھی ننھی پیاری پیاری آوازوں میں ایک گیت گایا۔ جس میں انگلستان کے لوگوں کے اس شوق کا اظہار بڑے پر زور اور موثر طریقے میں کیا گیا ہے۔ اس گیت میں ایک خوبصورت لڑکی اپنے چاہنے والے نوجوان کو خطاب کر کے کہتی ہے ۔’’سمندر کی خدمت میں جانا مری جان‘‘۔ یہ الفاظ کےگیت میں ہر چار مصرعوں کے بعد دہرائے جاتے تھے اور عجب تاثیر پیدا کرتے تھے۔ وہ سماں مدتوں نہیں بھولے گا۔ کیونکہ اسے دیکھ کر یہ عقدہ حل ہوتا تھا کہ وہ کونسی چیز ہے ۔ جو اس قوم کے اتنے افراد کو بحری خدمت اختیار کرنے کی طرف مائل کرتی ہے۔یہ گیت اُن گیتوں کا نمونہ ہے جن سے عرب خواتین اپنے شجاع شوہروں کی ہمت بڑھایا کرتی تھیں۔ کہاں ہیں وہ پاک دل اور پاک طینت گانے والیاں اور کہاں ہیں وہ قدردان سُننے والے۔ جو جانیں لڑا دیتے تھے۔ کہ گھر جائیں تو سرخرو جائیں۔ ورنہ میدان میں کام آئیں۔ دنیا ایک عالم خواب ہےپر گذشتہ قوموں کی عظمت کی اب صرف داستانیں رہ گئی ہیں۔ اور آج جن کی نوبت ہے وہ اپنا فرض اداکر رہی ہیں ۔اُس گیت کا مفہوم اگرکسی قدر آزادی کے ساتھ اردو میں ادا کیا جائے تو مندرجہ ذیلاشعار سے مطلب نکل آتا ہے :-
سمندر کی خدمت میں جانا مری جاں |
|
سمندر کی خدمت میں جانا مری جاں |
اسی میں ترقی کا ہے راز پنہاں |
اس سے بڑھے ہیں جو ہم میں بڑھے ہیں |
اسی کے سہارے ہم اکثر لڑے ہیں۔ |
سمندر کی خدمت میں جانا مری جاں |
|
تجارت ہماری سمندر کے بل پر |
حکومت ہماری سمندر کے بل پر |
اسی سے یہ دولت یہ ثروت ہماری |
نہ کیوں کر ہمیں اس کی موجیں ہوں پیاری |
سمندر کی خدمت میں جانا مری جاں |
|
اسی سے کیا نام نیلسن نے پیدا |
اسی پر ہرا ہم سے تھا آرمیدا |
اسی سے زمانے میں ہے دھاک اپنی |
اسی سے بنی قوم بے باک اپنی |
سمندر کی خدمت میں جانا مری جاں |
|
کہاں ہم کہاں ملک ہندوستاں تھا |
سمندر کا رشتہ مگر درمیاں تھا |
سمندر نے دُوری کو کیسا مٹا یا |
پھریرا ہمارا کہاں جا اُڑایا |
سمندر کی خدمت میں جانا مری جاں |
|
اگر چاہو تم مجھ کو اپنا بنانا |
سمندر کی خدمت سےدل مت چرانا |
محبت وطن کی دکھاؤ تو جانوں |
اگر ملک کے دل لبھاؤ تو مانوں |
سمندر کی خدمت میں جانا مری جاں |
|
سمندر سے جب نام کر کے پھرو گے |
وطن کا کوئی کام کر کے پھرو گے |
تو میں بھی فدا جان تم پر کروں گی |
تمہاری ہمیشہ کو میں ہو رہوں گی |
سمندر کی خدمت میں جانا مری جاں |
|
اگر لڑتے لڑتے گئے خود بھی مارے |
سمندر میں اگلے جہاں کو سہارے |
منگیتر بہادر کی پھر میں بنوں گی |
تمہیں اگلی دُنیا میں جلدی ملوں گی |
سمندر کی خدمت الخ
عبد القادر ( از لندن)