عورتیں بزدلی اور جبن میں ضرب المثل ہوتی ہیں۔ اور عام خیال ہے کہ وہ ہمیشہ سے بودی اور دل کی کمزور چلی آتی ہیں۔ اور جب حیوانات میں بھی نر و مادہ کی یہی حالت نظر آتی ہے تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ قطعی ہے، مگر اس سے یہ نہ خیال کر لینا چاہیے کہ کبھی کوئی عورت بہادر ہوئی ہی نہیں۔ تاریخ میں بہت سی ایسی عورتیں گزری ہیں۔ جنھوں نے اپنی بہادری اور سپہ گری سے مردوں کے حوصلے پست کر دیے۔
اسی عنوان پر انگلستان کے مشہور و مقبول عام شاعر و انشا پرداز گولڈ اسمتھ نے ایک دلچسپ مضمون لکھا ہے جو خالی ازلطف نہیں۔ ہم اس مضمون کو تھوڑے ردوبدل کے بعد اپنی زبان میں اخذ کر کے ناظرین دلگداز کے ملاخطے میں پیش کرتے ہیں۔ وہ مضمون حسب ذیل ہے:۔
اپنی زندگی کا زیادہ حصہ میں نے مردوں اور دیگر اشیا پر غور کرنے اور ایسی تدابیر سوچنے میں صرف کیا ہے جن سے میرے وطن کو فائدہ پہنچے۔ اگرچہ مجھے اپنی ان کوششوں کا کوئی پھل نہیں ملا مگر کامیاب ہوں یا نامراد اپنی کوششوں میں ہمیشہ اسی طرح مصروف رہوں گا۔ اور جس طرح مسٹر جیکب ہنریکے کی ہمت میں باوجود قوم کی بے پروائی کے کوئی فرق نہیں آیا ویسے ہی میرے حوصلوں میں بھی فرق نہ آئے گا۔ مسٹر موصوف یہودی المذہب ہیں۔ اس پر بھی مسیحوں کی فلاح و بہبود کے لیے انھوں نے ایک روشن و نمایاں نظیر پیش کی ہے۔ اور ایمان سے پوچھیے تو یہ مضمون لکھنے اور اس تحریک کے پیش کرنے پر مجھے انھیں کے ایک اعلان نے آمادہ کیا۔ اس اعلان میں اُنھوں نے انگلش پبلک سے فرمایا ہے کہ ’’خدا نے مجھے اپنے فضل و کرم سے سات بیٹیاں عطا کی ہیں جو خدا کی نعمتیں ہیں‘‘۔
اِن پدر بزرگوار اور اُن کی صاحبزادیوں کی خوبیوں کا لحاظ کیا جائے تو بےشک وہ ’’خدا کی نعمتیں‘‘ ہی ہیں لیکن وہ اس سے بھی بڑی نعمتیں اور برکتیں ثابت ہوں گی اگر انگلستان کی مجلس و اصنعان قوانین میری اس تحریک کو منظور کر لے۔
میرا خیال ہے کہ ممالک برطانیہ میں غالبا لڑکیوں اور لڑکوں کی پیدائش میں تیرہ اور چودہ کی نسبت سمجھی جاتی ہے۔ لیکن چونکہ عورتیں مے کشی اور دیگر صحت کش اخلاقی امراض میں کم مبتلا ہوتی ہیں اس لیے اگر بالغ حصہ آبادی کا موازنہ کیا جائے تو عورتوں کی تعداد یقیناً بڑھ جائے گی۔ اور مردوں کی اس تعداد میں اگر ہم اس گروہ کثیر کا لحاظ کریں جو ہر سال نو آبادیوں میں چلا جاتا ہے اور پھر کبھی وطن کی صورت نہیں دیکھتا، تو ملک میں عورتوں کی تعداد بہت بڑھ جائے گی۔ اس کے بعد جب اُن مردوں کا حساب لگائیے جو جنگی مہموں میں جان دیتے اور فوجی ضرورتوں سے وطن کو چھوڑ کے بحرہ اعظم مغرب، بحیرہٴ روم، بحر جرمنی، بحر ہند، فرانس قدیم، فرانس جدید، شمالی امریکہ اور ممالک ایشیا و افریقہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور ان ممالک دور و دراز میں وطن اور اغراض وطن پر قربان ہوتے رہتے ہیں تو ان میں لکھو کھا مردوں کی تعداد اور گھٹا دینا چاہیے۔ اور اُس کے مقابل عورتوں کی تعداد کا بڑھ جانا یقینی ہے۔
عورتوں کی اس تعداد کثیر میں بہت سی ایسی موجود ہیں جو اسلحہ سے بخوبی کام لے سکتی ہیں۔ اس لیے کہ میرے خیال میں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ جو شخص بچوں کا بوجھ اُٹھا سکتا ہے وہ ہتھیاروں کا بوجھ بھی اٹھا سکتاہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ لڑنے اور جواب ترکی بہ ترکی دینے کا مادہ عورتوں میں مردوں سے بدرجہا بڑھا ہوا ہے۔
اس کو بھی نہ بھولنا چاہیے کہ اکثر تجربہ کار و سن رسیدہ عورتوں نے قوم کی حکمرانی اور ملک کی قربانی کی ہے۔ لہذا اس بات کو بے تکرار مان لینا چاہیے کہ جس جماعت کی محترم بڑھیاں حکمرانی کر سکتی ہیں، اس کی جوانیں ملک کی حفاظت و حمایت بھی کر سکتی ہیں۔ اُس زمانے میں یہ ضرورت بہت نمایاں طور پر محسوس ہونے لگتی ہے جب کرہ زمین کی نازک مہموں اور فوج کشیوں کے لیے ہماری قوم میں فوج کی بھرتی ہونے لگتی ہے۔ حصوصاً آج کل (بہ عہد گولڈ سمتھ ) جبکہ ہمارے اور اسپین کے درمیان ایک نئی لڑائی چھڑ گئی ہے، اٹلی کے مقابلے میں اعلان جنگ ہوا ہی چاہتا ہے، اور ایسا نازک زمانہ آگیا ہے کہ یورپ کے تمام دول عظمی کے مقابلے میں ہم علم مخالفت بلند کرنے پر مجبور ہیں۔