لیکن اپنی اس تجویز کے پیش کرنے سے پہلے مجھے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تجربہ و استقلال سے کام لے کر اُن تمام اعتراضوں کو دور کر دیا جائے جو اس پری جمال طبقے کی نازکبدنی و نازک مزاجی کو پیش کر کے وارد کیے جاتے ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ گلبدنیں نہ زیادہ محنت و مشقت کر سکتی ہیں۔ اور نہ میدان جنگ کی کی ہولوں اور جانفشانیوں کی متحمل ہو سکتی ہیں۔ اُن سپہ گرنازنینوں کا حال ساری دنیا سُن چکی ہےجو دریائے شیر مودوں کے کنارے مملکت کپادوقیہ میں آباد تھیں۔ جنھوں نے اپنی قوت بازو سے سارے مردوں کو اپنی قلمر و سے نکال باہر کیا تھا۔ خود اپنی قوت و قابلیت سے اپنے ملک کی حفاظت و نگہبانی کرتی تھیں انتظام مملکت کو چلاتی تھیں۔ اسلحہ سے بخوبی کام لیتی تھیں۔ اور مردوں کو اپنےمقابلے میں بہت ذلیل و خوار تصور کرتی تھیں۔ ہمیں دیوتاؤں کے عہو کا مورخ شاعر ہومر بتاتا ہے کہ اِن سپہگر نازنینوں کی ملکہ پنتھی سسیلیا نے یونانی مہا بھارت یعنی جنگ ٹرائے کے معرکے میں پریم کی طرف سے بہادارانہ مقابلہ کیا اور ٹرائے کی دیواروں کی نیچے میدان کارزار میں لڑتی ماری گئی۔ قدیم مورخ کونیطون قُورطیوس بیان کرتا ہے کہ ثاکی طزس نے ایک سو مسلح جنگجو نازنینیں اسکندر اعظم کے سامنے لا کے پیش کی تھیں۔ دیودورُس مورخ زور دے کر بیان کرتا ہے کہ افریقہ میں زنان جنگو کی ایک قوم تھی جنھوں نے لیبیا کے ہرقل سے مقابلہ کیا تھا۔ تمام مورخین روم تسلیم کرتے ہیں کہ عربی علاقہ شام کی ملکہ زنابیہ نے روم کی زیردست تاجداروں اور وہاں کی باضابطہ فوجوں کا مقابلہ مدت دراز تک بڑی بہادری اور خوبی سے کیا۔ مصر کی قلوپطرہ نے قیاصرہ روم کو مدتہائے دراز تک اپنی حکمت عملیوں کا کھلونا بنائے رکھا۔ ایران کی نازنیں پہلوانن گرد آفریدی نے غیر معمولی جوانمردی کے ساتھ سہراب کا مقابلہ کیا۔ اور گرفتار ہو جانے کے بعد نہایت چالاکی کے ساتھ اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کے نکل گئی۔ خسرو پرویزکی محبوبہ شیریں کی ماں نہیں بانو کس خوبی اور اطمینان کے ساتھ ملک آرسن و گرجستان پر حکومت کرتی تھی؟ ظہور اسلام کے وقت عرب کی عورتیں جس طرح شمع اسلام کی پروانہ بنیں اور جیسی بہادری وجان بازی سے انھوں سے اپنی آبرو اور اپنے مردوں کی جانوں کو دشمنوں کے ہاتھ سے بچایا، دنیا میں آپ ہی اپنی نظیر ہے۔ امریکہ کا پتا لگانے والے بحری سیاح کولمبس کے سیاحت نامے میں ہےکہ وہاں کے ایک جزیرے پر جنگجو عورتوں کی ایک قوم کا قبضہ تھا۔ جن سے امریکہ کے تمام لوگ ڈرتے رہتے تھے۔ تازکبدنان عالم کے ان گذشتہ کارناموں سے قطع نظر کر کے ہم اپنی جزائر برطانیہ کی گلبدنوں پر نظر ڈالیں تو وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ہماری خوبرو صنف کا دلی جوش اور اُن کے مضبوط ہاتھ پاؤں دونوں اس قابل ہیں کہ معرکہ کارزار میں اُن سے کام لیا جائے۔ اس میں ذرا بھی شک نہ کرنا چاہیے کہ یہ گل اندامیں لڑائی کے دھڑکوں اور معرکہٴ کاردار کی محنتوں کو بخوبی برداشت کر سکتے ہیں۔
ہر نئی نویلی نازنیں جس نے بحری ڈاکہ زنی کی تاریخ پڑھی ہے وہ نازنیں تاراج کرنے والیوں، میری ریڈ اور اینی بونی کے کارناموں سے ضرور آگاہ ہو گی۔ مجھے(گولڈ سمتھ کو)بذات خود اینی کا سیر عرف مادر وِیڈ کے ساتھ گلرنگ کا جام پینے کی عزت حاصل ہو چکی ہے۔ جس نے جوانی میں اسپین والوں پر امریکہ کے بحری حملے اور تاختین کرنے والوں میں بڑی نمود حاصل کی تھی۔ اور بڑھاپے میں شہر جمیکا میں مقیم ہو کر ایک شراب کھانا کھول دیا تھا۔ علی ہذا لقیاس میں نے مول ڈیوس سے باتیں کی ہیں جو ملکہ اینی کے عہد کی تمام لڑائیوں میں ایک ڈریگون پلٹن میں بہ حیثیت ایک جاں باز سپاہی کے سپہگرانہ خدمتیں انجام دے چکی تھی۔ اور چلزی کے سرمایہ وظائف سے وظیفہ حسن خدمت پاتی تھی۔ اسپین کی تمام گذشتہ اور حال کی لڑائیوں میں گلبدن نیزہ بازنیوں کی نظریں ملتی ہیں۔ وہاں کی جانباز عورتوں نے بحری و بری دونوں قسموں کی فوجوں میں اپنے آپ کوبھرتی کرایا۔ مردانہ بھیس کر کے میدان کارزار میں آئیں۔ اور شجاعت و پامردی کے کارنامے دکھائے۔ اسی طرح جنیکامیروں اور شمالی برطانیہ کی چند اور نازکبدن خاتونوں کی معرکہ آرائیوں کی شہرت کس نے نہیں سنی جو ایک خاص نبرد آزما کے ساتھ اس کی تمام مہموں میں شریک تھیں۔ اور فوجی طریقے سے اپنے اپنے گرہ سرداری کرتی تھیں؟ جن لوگوں نے پلے موتھ کی پیراک عورتوں کو دیکھا ہے وہ اس سے انکار نہ کر سکیں گے کہ اس نازکبدن طبقے والیوں کے دلوں میں اکثر اتنی ہی جرات ہوتی ہے جتنی اُن کے نازک ہاتھ پاؤں میں سکت ہوتی ہے۔ پھر آئرلینڈ۔ ویلز اور سکاٹ لینڈکی مزدورنیوں، بلنگس گیٹ کی مچھلی والیوں، اور گاؤں کے کھیت نکانے والیوں، پھلیاں توڑنے والیوں، اور گھسیارنیوں کو دیکھو جن کی زندہ دلی سے کھیتوں میں ہر وقت چہل پہل رہتی ہے۔ اور ان سب کے بعد ان نہ تھکنے والی گشت کرنے والیوں پر نظر ڈالو جو لندن کی سڑکوں پر دن رات تاوے لگاتی پھرتی اور اُن سے بھی بڑھ کے اُن بیباک و بے حیا عورتوں کاخیال کرو جو کوچ کرنے والی صفحوں کے پیچھے اور انھیں میں ملی ہوئی چلتی ہیں۔ اور بجاے اسلحہ کے اُن پر اُن کے بچوں کا بوجھ ہوتا اور بوریا بدھنا پیٹھوں پر لادے ہوتی ہیں۔
لندن کی کوئی سڑک نہ ملے گی جس پر دو ایک ایسی تازہ دم گُونگڑی مردانگی کا جوہر دکھانے والی زبردست عورتیں نہ نظر آجائیں جو اپنے شوہروں کو باقاعدگی کی تعلیم دیتی اور سارے قرب و جوار پر جابرانہ شحصی حکومت قائم رکھتی ہیں۔ چند ہی روز ہوئے کہ میں نے دو پہلوان عورتوں کی معرکہ آرائی کا تماشا دیکھا تھا۔ جنھوں نے یکساں ہنر مندی و پامردی سے دیر تک مقابلہ کیا۔ یہاں تک کہ لڑتے لڑتے ایک کو نیچا دیکھنا پڑا۔ مگر اُس وقت جب وہ سات بار سنگلاخ چٹان پر گر گر گر کے چوٹیں کھا چکی تھی۔ یہ دونوں حریفنیں کھنچی ہوئی چست کرتیاں پہنےتھیں۔ اُن کے نیچے چھاتیوں کو اس طرح کس کے رومالوں سے باندھ لیا تھا کہ چوڑے سینے والے بھاری بھرکم جوان معلوم ہوتی تھیں۔ اور چونکہ خط و خال سے بھی کوئی زنانہ پن نہیں نمایاں تھا اس لیے میں دونوں کو مرد سمجھا اور دیر تک اسی دھوکے میں رہا یہاں تک کہ ایک تماشائی نے جو میرے پاس کھڑا تھا مجھے یقین دلایا کہ یہ دونوں مرد نہیں عورتیں ہیں۔ اور اس جیتنے والی کہ ابھی پانچ ہفتے ہوئے دو جڑواں حرامی بچے ایک آشنا سے پیدا ہوئےجو آئرلینڈ کی کسی جماعت کا میر مجلس ہے۔