Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the chromenews domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/elmuhand/urdujarida.com/wp-includes/functions.php on line 6121
شمشیر زناں نازک بدن – Page 3 – اردو جریدہ

اسٹرینڈ اسٹریٹ کی گلیوں کو ہر رات میں ایسی خیرہ سر گلبدن حملہ آورنیوں کے لشکر عظیم سے بھرا پاتا ہوں جو ہولناک انداز سے راہگیروں کو ٹوکتی۔ ٹھونکتی اور لوٹتی ہیں اور اُن کو دیکھتے ہی فورا دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ جہانگیرانہ انداز اس بیہودگی سے بدل کے ملک کی خدمت کے قابل بنا دیا جاتا اور یہ عشق مجازی کا جوہر عشق حقیقی بن جاتا تو کس قدر اچھا ہوتا؟ اور یہ غارت کُن دین و ایمان رہزنیں جن میں جوش و شفف کی آگ اس شدت سے بھڑک رہی ہے کہ عالم آخرت کی ازلی آگ کو بھی بالکل خطرےمیں نہیں لاتیں، اگر ایسی راہ لگا دی جائیں کہ بعوض مومنوں کی روحوں اور اُن کے جسموں کے غارت کرنے کے اپنی تباہ کن حصوصیتوں سے قوم کے دشمنوں کو پامال اور آماجگاہ سہام ناز بنانے لگیں تو کس قدر اچھا ہو؟

اس بات کو بخوبی ثابت کر دینے کے بعد کہ حسینوں اور خوبرویوں کے طبقے مین قوت و استقلال کی کوئی کمی نہیں میں بکمال عجز دالحاح تحریک کرتا ہوں کہ چونکہ ان ناز آفرینوں کی تعداد میں لکھو کھا افراد کی کثرت ہے۔ لہذا ان میں کا ایک حصہ فوج کی بھرتی میں لے لیا جایا کرے۔ اس طرح کہ جنگجو کماندارنیوں کی تیس نئی پلٹنیں تیار کی جائیں اُن کی افسر بھی عورتیں ہی ہوں۔ اور ایک دلفریب اور محو جمال کرنے والی وردی پہن کے بجائے اپنوں کے غیروں کی جان ستائی کریں۔

اُن کے سپہگرانہ انداز اور اُن کے وردیوں کے بارے میں میں یہ کہوں گا کہ قدیم الایام کی جنگجو جان ستان دلر بائیں (امیزنین)اس وضع سے میدان جنگ میں آتی تھیں کہ بائیں چھاتی کھلی رہتی، ڈھیلی کرتیاں پہنتیں۔ اور پائجامہ زانوں کے نیچے آگے نہ بڑھتا۔ داہنی چھاتیاں کٹوا ڈالتیں تاکہ کمان کھینچنے اور نیزہ بازی کرنے میں مزاحم نہ ہوں۔ موجودہ قواعد جنگ کی روسی ایسی حسن کُشی اور ایسی ظالمانہ وضع کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ متعدد عورتوں کو دیکھ چکے ہیں۔ بغیر اس کے کہ یہ سینے کا ابھار ذرا بھی رکاوٹ پیدا کرے بندوق چلا لیتی ہیں۔

یہ نازکبدن وگلرخ گروہ چونکہ نمائشی زرق برق کا نہایت ہی دلدادہ ہے لہذا اُن کی وردی اُنھیں کے مذاق اور اُن کی جان ستانی میں قوت پیدا کرنے کے لیے یہ قرار دی جا سکتی ہے کہ غلطے کی عباسی رنگ کی چست کرتیاں ہوں، اور اُسی کپڑے کے ڈھیلی مہریوں کے پائجامے رہیں۔ پاؤں پنڈلیاں، اونچے اور لمبے بُوٹوں میں چھپے رہیں۔ گیسو اس انداز سے سمیٹ کے پیچھے ڈال دیے جائیں کہ پیٹھ اور شانوں پر لہراتے رہیں(مگر انگلستان کے موجودہ مذاق کے لحاظ سے آدھی کے قریب زنانی پلٹنیں ایسی رکھنا پڑیں گی جن کے مال پُرقینچ ہوں۔ کیونکہ اب فیشن کے موجودہ عہد ترقی میں زلفوں اور کاکلوں کی وہ اگلی قدر اور اہمیت نہیں باقی رہی) سر پر خوبصورت اور سُبُک ٹوپیاں ہوں اور اُن پر سفید پروں کی کلغیاں لگی ہوں جن کا ان گلعذاروں کو بہت شوق ہے۔ ہلکی اور سبک قرابینوں اور لمبی باریک سنگینوں سے یہ مسلح کی جاسکتی ہیں بغیر اس کے کہ تلواروں اور پرتلوں کا جھگڑا ان کے پیچھے لگایا جائے۔ لیکن یاد رہے کہ اگر ہندوستان یا ایران یو کسی اور ایشیائی ملک پر فوج کشی کی نوبت آئی تو ان میں وشوں کی ہاتھ کی تلواریں سنگینوں سے زیادہ کار گر ہوں گی۔

مجھے اس میں ذرا شبہ نہیں کہ بہت سی اچھی صورت اور وضع والی خاتونیں اگر گورنمنٹ نے منظور کیا تو اس کام کو اپنے ذمے لے لیں گی کہ کئی کئی کمپنیاں اپنے خرچ سے تیار کردیں بشرطیکہ ایسی کمپنیوں کی کمیدانّیاں اُن کے نداق اور پسند کی ہوں۔ لیکن اگر میری یہ تحریک پسند اور منظور کی جائے تو میں زور کے ساتھ سفارش کرتا ہوں کہ مسٹر ہنریکے کی ساتوں بیٹیاں جو خدا کی نعمتیں ہیں اُن کو کمیشن ضرور دیے جائیں۔ اس لیے کہ دراصل یہ تحریک انھیں محترم و محب وطن بزرگ کے خیال دلانے سے میرے دماغ میں آئی۔ اور میں نے مقننّوں کےآگے اس کے پہش کرنے کی عزت حاصل کی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *