
علاوہ بریں میں یہ بھی سفارش کرتا ہو ں کہ مسز کٹی فشران زنانی پلٹنوں مین سے ایک کی کمیدانن بنائی جائیں۔ اور ان کو اختیار دیا جائے کہ اپنی ماتحت سردارنیوں کو وہ خود منتخب کر لیں۔ بشرطیکہ خاتون مذکورہ اس بات کا اطمینان دلائیں۔ اور پسند کریں کہ وردی کے اوپر اعزازی بلوں لگائیں گی۔
مجھے یقین ہے کہ ہمارے اس زنانے لشکر کو جسے باضابطہ تعلیم دی گئی ہو اور لباس و اسلحہ سے خوب آراستہ ہودشمنوں کی کسی بڑی سے بڑی جماعت پر دھا دا کر دینے میں ذرا بھی اندیشہ نہ ہو گا۔ اُنھیں اپنے حریفوں پر فوقیت لے جانے کے اچھے خاصے موقع حاصل ہیں۔ اس لیے کہ اگلے اہل خطا کو قدیم الایام کی اُن جنگجوگلبدنوں سے لڑتے شرم آتی تھی جنھوں نے اُن پر چڑھائی کر دی تھی تو آج بھی فرانس والے گلبدن نازنینوں پر جان فدا کرنے میں مشہور ہیں۔ لہذا جس وقت ہماری یہ نازکبدنوں کی فوج چڑھائی کرے گی۔ جس کی بانکی مہ وغنین جوانی اور حسن کے تمام سامانوں سے آراستہ ہوں گی۔ وہ لوگ ہر گز اس کا سامنا نہ کریں گے۔ اور ہمیں فتحوں پر فتحیں حاصل ہوتی چلی جائیں گی۔
گولڈ سمتھ کے اس بکار آمد دلچسپ اور نتیجہ بخش تحریک پر نظر ڈالنے کے بعد ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہندوستان مین بھی ایسی فوج مفید ہو سکتی ہے یا نہیں۔ ایشیا کے لوگ حسن و جمال والی صنف نازک کے اتنے قدردان نہیں ہیں جتنے یورپ والے ہیں۔ لہذا ان لوگوں سے اطمینان نہیں ہو سکتا کہ قدیم اہل خطا یا حال کے اہل فرانس کی طرح اُن نازنیں شمشیر زنوں کی مروت کریں گے۔ وہ مقابلہ کریں گے اور ہر طرح کی بے حرمتی کر ڈالیں گے۔ لہذا یہاں کی سرحدی قومیں اس قابل نہیں کہ اُن کے مقابلے پر زنانی فوج بھیجی جا سکے۔
مگر ہاں یہاں پولیس میں یہ صنف نازک اعلیٰ درجے کی کارگذاریاں دکھا سکے گی۔ جاسوسی میں عورتوں کو مردوں پر فطری فوقیت حاصل ہے۔ تفتیش اور مقدمات کے برآمد کرنے میں جتنا عورتوں کا فن ’’تریابید‘‘ نتیجہ بخش ثابت ہو سکتا ہے مردوں کی فطری مسانت اور صفائی نہیں کام دے سکتی۔ پھر پردے کی وجہ سے مرد پولیس مینوں کو زنانے کے اند رکے واقعات اس آسانی سے نہیں معلوم ہو سکتے جتنے زنانی برقندازنوں کو معلوم ہو جایا کریں گے۔ لہذا یہاں زنانی فوج کی اتنی ضرورت نہیں ہے جتنی زنانی پولیس کی ہے۔