ہندوستان میں شعرائے عجم میں سے سو دو سو نہیں ہزاروں آئے مگر کسی کو وہ ہر دلعزیزی اور عام شہرت نہیں نصیب ہوئی جو ان بزرگ کو حاصل ہے۔ دولت مغلیہ کے دور میں شعر و سخن کی جتنی قدر ہندوستان میں تھی خود صفویہ تاجداروں میں نہ تھی۔ شعرا کی اتنی قدر وہاں کے دربار میں نہ ہوئی جتنی وارثان تیمور کے دربار میں ہوتی تھی اور یہی سبب تھا کہ ایران کے شاعروں ہی کا نہیں ہر اعلی و ادنی عجمی کا رخ ہندوستان ہی کی طرف پھر گیا تھا۔ مگر اخری زمانے میں جب شیخ علی حزین آئے تو وہ قدردانی کے امیدوار بن کے نہیں بلکہ ایران کے فتنوں سے جان بچانے کے لیے انہوں نے ہندوستان میں پناہ لی تھی۔ وہ ایک معزز علمی خاندان ایران کی یادگار تھے۔ والد کا نام شیخ ابو طالب گیلانی تھا۔ جو شیخ تاج الدین ابراہیم عرف شیخ زاہد گیلانی کے اولاد امجاد میں تھے۔ شیخ زاہد گیلانی، شیخ صفی الدین ارد بیلی کے مرشد و رہنما تھے۔ شیخ علی حزین 27 ربیع الثانی 1130ھ میں اصفہان میں پیدا ہوئے۔ نادر شاہ کا جب دور ہوا۔ اور اس کے ہاتھ سے ایران کے علما و اہل فن کو ضرر پہنچنے لگا تو وطن کو حسرت کے ساتھ رخصت کیا۔ اور بھکر اور ملتان ہوتے ہوئے 1146ھ میں یعنی جب عمر 43 سال کی تھی دہلی میں پہنچے۔ 14 سال تک نہایت خاموشی کے ساتھ دہلی کے ایک عزلت کدے میں رہے تھے کہ نادر شاہ نے چڑھائی کی۔ اور مشہور یہ ہے کہ اس نے انہیں کے تعاقب میں ہندوستان کا رخ کیا۔ بالذات اس کا ہندوستان میں انے کا ارادہ نہ تھا۔ ایلچی بھیج کے خواہش کی کہ ایران کے مفرورین جو ہندوستان میں آئے ہوں اس کے پاس بھیج دیے جائیں۔ یہاں اس کی پروانہ کی گئی۔ اور وہ جھنجھلا کے چڑھ دوڑا۔ جب وہ دلی میں پہنچا ہے تو شیخ علی حزین میں دہلی کو بھی چھوڑا۔ اور اگرے پہنچیے۔ چند ہی روز میں وہاں کے قیام سے بھی جی اکتایا تو ممالک مشرق کیطرف کوچ کیا جو سرزمین مغربی حملہ آور کی دستبرد سے دور تھی۔ چنانچہ اودھ سے گزرتے ہوئے بنارس پہنچے۔ وہاں صبح بنارس نے اپنا ایسا گرویدہ کیا کے پاؤں توڑ کے وہیں بیٹھ گئے۔ ہندوستان میں وہ نہایت ہی نازک طبع اور مدمغ مشہور ہیں۔ مدمغ سے یہ مراد نہیں کہ ان میں غرور تھا۔ بلکہ بد مذاق لوگوں سے ملنے میں انہیں سخت تکلیف ہوتی تھی نازک فکری اور نزاکت خیالی نے اس قابل ہی نہ رکھا تھا کہ جاہل اور بد مزاق لوگوں کی بدتمیزیاں برداشت کر سکیں۔ مشہور یہ ہے کہ ان کا ایک پڑھا لکھا شاعرانہ طبیعت کا خادم تھا ’’رمضانی‘‘۔ اس کے بغیر زندگی کٹنا دشوار تھا۔ کبھی کبھی موزوں الفاظ میں بات کرتے ہیں اور وہ ان سے زیادہ لطافت سے دوسرے مصرع میں جواب ادا کر دیتا۔ انہوں نے کہا ’’رمضانی مگسان می آیند[1]‘‘ فراس نے برحستہ جواب دیا ’’ناکساں پیش کساں می آیند[2]‘‘ انھوں نے پوچھا ’’از شب چہ قدر رسیدہ باشد[3]؟‘‘ اس نے فورا جواب دیا ’’زلفش بکمر رسیدہ باشد[4]‘‘. انھوں نے کہا ’’رمضانی گل صد برگ چرامی خندد؟‘‘[5] اس نے جواب دیا ’’بر فنائے خود و بر ہستی ما می خندد‘‘[6] ان کی زبان سے نکلا ’’درین بزم رہ نیست پروانہ را[7]‘‘۔ اس نے کہا ’’کہ پروانگی داد پروانہ را؟‘‘[8] ان واقعات کو کسی تذکرہ نویس نے نہیں لکھا مگر ان واقعات کی ادنےواعلی ہر ایک میں شہرت ہے۔ اور یہ باتیں دراصل ان قومی روایات میں سے ہیں جن کے محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان باتوں اور نازک دماغیوں کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی سے نہ ملتے تھے۔ اور اگر کبھی ملتے تو عوام کی بیہودہ باتوں سے نہایت بد دماغ ہو جاتے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن کسی شعر کی فکر میں خاموش اور تنہا بیٹھے تھے۔ اور سامنے باہر کا دروازہ کھلا تھا۔ ایک لالہ بھائی نے دور سے جو دیکھا تو دل میں آئی کہ چلو۔ آج شیخ حسن علی حزین کو اپنا کلام سنائیں بے تکلف اندر گھس آئے۔ سلام کر کے سامنے بیٹھ گئے۔ اور کہا ’’جناب والا میں بھی کچھ فارسی کہہ لیتا ہوں۔ اور تمنا ہے کہ جناب چند اشعار بنظر اصلاح سن لیں‘‘۔ اور قبل اس کے کہ شیخ صاحب کچھ کہیں اپنا دیوان کھول کر غزلیں سنانے لگے۔ شیخ صاحب تھوڑی دیر تک تو خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ پھر بیتابی اور تکلیف بڑھنا شروع ہوئی یہاں تک کہ ضبط نہ ہو سکا۔ اور فرمایا ’’براے خدا برد۔ دانم کہ جوب مے گوئی‘‘۔ نازک خیالی کی شان اس سے بہتر کسی بات میں نہیں نظر آ سکتی کہ کسی شاگرد نے یہ شعر بہ غرض اصلاح پیش کیا۔
آواز پائے بلبل بیدار کر دمارا | دی شب بہ صحن گلشن از ناز خفتہ بودم[9] |
انھوں نے شعر پڑھا۔ غور کیا۔ اور اصلاح دی۔
پرواز رنگ گلہا بیدار کر دمارا | دی شب بہ صحن گلشن از ناز خفتہ بودم[10] |
ظاہر ہے کر ’’آواز پاے بلبل‘‘ [11]کی جگہ ’’پرواز رنگ گلہا‘‘[12] رکھ دینے سے اس قدر نزاکت پیدا ہوگئی کہ بیان نہیں ہو سکتی۔
ہندوستان میں جن دنوں شیخ علی حزین آئے ہیں اگرچہ اسلامی سلطنت کو زوال شروع ہو گیا تھا مگر فارسی کے قدر دان ہر جگہ موجود تھے۔ لیکن ان کی اسی نازک دماغی کی بدولت جس نے بد دماغی کی صورت پیدا کر لی تھی لوگ ان کے پاس آتے ڈرتے۔ بنارس جاتے وقت لکھنو میں بھی گزر ہوا۔ اور سنا جاتا ہے کہ فرماں روائے لکھنو کمال قدر دانی سے ملنے کو خود ان کے پاس گیا۔ مگر وہ ہندوستان کے کسی شاعر کو اس قابل بھی نہ سمجھتے تھے کہ اسے اپنا کلام سنائیں۔ اس کا کلام سننا تو بڑی بات تھی۔ ان دنوں اردو شاعری کا آغاز عہد تھا۔ اور مرزا رفیع سودا کی خوش گوئی و قادر الکلامی کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ شیخ صاحب اس شہرت کی بنا پر ان سے ملے۔ اور فرمائش کی کہ اپنا کوئی شعر سناؤ۔ سودا نے اپنا یہ شعر پڑھا۔
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں | ناوک نے اس کی صید نہ چھوڑا زمانے میں |
شیخ صاحب نے ’’تڑپے‘‘ کے معنی پوچھے۔ کہا ’’می طپد‘‘ سنتے ہی زانو پر ہاتھ مار کر فرمایا ’’سودا یک مرغ قبلہ نما باقی بود آنرا ہم نہ گزاشتی!‘‘[13] بعض لوگ اس کے خلاف یہ کہتے ہیں کہ شعر کا مطلب سمجھنے کے بعد ان الفاظ میں داد دی کہ ’’سودا اور پوچ گویان ہند غنیمت است‘‘[14]۔ بنارس سے ان کو بے حد انس ہوگیا تھا۔ اگرچہ ان دنوں وہاں ویسی صحبتیں نہ نصیب ہو سکتی تھیں جیسی دہلی و لکھنو میں تھیں۔ مگر وہ اپنے عزلت کدہ بنارس میں خاموش تھے اور خوش۔ چنانچہ بنارس کی تعریف میں فرماتے ہیں۔
ہر برہمن بچہ لچھمن و رام است اینجا | از بنارس نہ روم معبد عام است اینجا[15] |
مگر دنیا سے دل کچھ ایسا سیر ہو گیا تھا کہ جب تک بنارس میں رہے موت کا انتظار کرتے رہے۔ چنانچہ اپنے سامنے اپنی قبر بنوا کے تیار کرا لی تھی۔ اور اس پر نصب کرنے کے لیے لوح بھی کھدوا کے رکھ لی تھی۔ آخر ستتر سال کی عمر پا کر 1180ھ میں سفر اخرت کیا۔ ان کی قبر ’’فاطمان‘‘ میں اج تک زیارت گاہ خاص عام ہے۔ ہندو مسلمان سب شوق سے جاتے اور عبرت حاصل کرتے ہیں۔ اور فارسی دان زائروں کی لوح دل پر لوح مزار کے یہ اشعار اس طرح نقش ہو جاتے ہیں کہ مرتے دم تک نہیں بھولتے۔
ہمی دانم بگوش از غیب آوازے رسید انیجا | زبان دان محبت بودہ ام دیگر نمی دانم [16] |
سر شوریدہ بر بالین آسائش رسید اینجا | حزین از پائے رہ پیما بسے سرگشتگی دیدم[17] |
- رمضانی! مکھیاں آ رہی ہیں ↑
- نا کس (غیر انسان) انسانوں کے سامنے آ رہے ہیں۔ ↑
- شب کہاں تک پہنچی؟ ↑
- اس کی زلف اس کی کمر تک پہنچ گئی ہے۔ ↑
- رمضانی! گیندے کا پھول کیوں مسکرا رہا ہے۔ ↑
- اپنے فنا ہونے اور ہماری ہستی پر مسکرا رہا ہے۔ ↑
- اس بزم میں پروانے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ↑
- پروانے کو پروانگی کس نے دی۔ ↑
- کل شب میں صحن گلشن میں بے نیازی سے سو رہا تھا یہ بلبل کے پاؤں کے آواز نے مجھے جگا دیا۔ ↑
- کل شب میں صحن گلشن میں بے نیازی سے سو رہا تھا کہ پھولوں کے رنگ کی پرواز نے مجھے بیدار کر دیا۔ ↑
- بلبل کے پیروں کو آواز ↑
- پھول کے رنگوں کی پرواز ↑
- سودا! ایک مرغ قبلہ نما رہ گیا تھا تم نے اسے بھی نا چھوڑا۔ ↑
- سودا بیہودہ گو ہندوستانیوں میں غنیمت ہے۔ ↑
- میں بنارس سے نا جاؤں گا کہ یہ سب کی عبادت گاہ ہے۔ ہر برہمن یہاں لچھمن اور رام کی اولاد ہے۔ ↑
- میں محبت کی زبان کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتا تھا۔ یہی جانتا ہوں کہ میرے کان میں غیب سے آواز آتی تھی ↑
- حزین! میں نے اپنے رہ گرد پاؤں سے بہت تکلیف اٹھائی۔ میرے پریشان حال سر کو یہاں تکیے پر راحت ملی۔ ↑