آسٹریا کے ملک میں لڈوگ وان بتھوون (Ludwig van Beethoven) فن موسیقی کا بڑا استاد گزرا ہے۔ 16دسمبر 1770ءکو شہر بون میں پیدا ہوا اور 56برس زندہ رہ کر 26مارچ 1827ء کو ویانا شہر میں مرا۔ ان دونوں شہروں میں اُس کی سنگین مورتیں نصب ہیں جو اس کی عزت اور شہرت کی دلیل ہیں۔ اس صاحب کمال نے علم موسیقی میں بہت سی تصانیف چھوڑی جنکی قدر یورپ میں ابتک کی جاتی ہے۔ اس کی زندگی کا عجیب واقعہ تھا کہ 36برس کی عمر تک پہنچا تو بالکل بہرہ ہو گیا۔ اگرچہ یہ مصیبت سب کے لیے سخت ہے۔ لیکن ایسے شخص کے لیے جس کی زیست کا مقصد اور زندگی کا لطف محض کانوں اور عمدہ آوازوں کو قواعد موسیقی کی پابندی کے ساتھ خود ایجاد راگوں اور راگنیوں میں ترتیب دینے پر منحصر ہو اُس کے لیے اس سختی کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ غرض بیس برس اسی غم اور بے بسی میں کاٹے یہاں تک کہ زندگی ختم ہوئی۔ لیکن اس حال میں بھی شوق جاری رہا اور بڑی قابل قدر چیزیں اپنےفن میں ایجاد و تصنیف کر گیا۔ ذیل کا مضمون ایک انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے۔ اس میں وہ چند واقعات درج ہیں جو موت سے پانچ چھ روز پہلے اس پر گذرے تھے۔۔۔۔۔(عنایت اللہ)

مارچ 1827ء کی بیسویں تاریخ تھی کہ ملک آسٹریا کے شہر بیڈن (Baden) میں ایک بڑی عمر کا آدمی گھر میں پریشان بیٹھا سفر کی تیاری کرتا تھا۔ صندوق میں سے کپڑے نکال کر ایک بیگ میں رکھ رہا تھا۔ موسم بہت سرد تھا۔ دروازوں کے شیشوں پر برف جم گئی تھی۔ گھر کے اندر آتشدان میں دو چار لکڑیاں جل کر راکھ ہو چلی تھیں۔ زیادہ لکڑیاں لگا کر آگ کو تیز کرنے کا خیال یا تو اس لیے نہ آیا کہ اس غریب کا دل اس وقت کسی سخت الم میں مبتلا تھا، یا یہ خیال ہوا کہ سفر درپیش ہے۔ سرمایہ قلیل ہے۔ کفایت شعاری کرنی چاہیے۔ گھر کی صورت سے بھی افلاس ظاہر تھا۔ اسباب میں فقط ایک مسہری تھی جس پر پھیکے رنگ کے سبز اونی پردے پڑے تھے۔ دو چار پُرانی وضع کی کرسیاں تھیں جنکی پوششیں پُرانی ہو کر خراب ہو گئیں تھیں۔ باقی ایک میز تھی اور ایک باجا تھا جس کو ہارپ سی کورڈ کہتے ہیں۔ میز پر بہت سے کاغذ پریشان پڑے تھے جن پر موسیقی کی علامات میں گتیں لکھی تھی۔ ایک ورقہ پر کچھ مٹے کٹے حرف تازے لکھے نظر آتے تھے جن سے پتا چلتا تھا کہ اس سے کچھ دیر پہلے وہ کسی کام میں مصروف تھا۔ اِس ویران گھر کے رہنے والے کی عمر پچاس اور ساٹھ کے درمیان تھی۔ مصائب نے گو پشت کو خم کر دیا تھا۔ لیکن بلند پیشانی پر جو عقل و ذہانت سے روشن تھی سفید بالوں کی رو پہلی لٹیں بکھری رہتیں تھیں۔ آنکھوں میں وہ چمک اور خلقت کی گرمی تھی گویا سیاہ رنگ کے شعلے روشن ہیں۔ چہرہ زرد و سفید تھا اور رخساروں کی کسی قدر سُرخی کو زیادہ تیز کر کے دکھاتا تھا۔ جب سفر کا ضروری سامان بیگ میں رکھ لیا تو میز کے قریب آیا جس پر ایک خط پڑا تھا۔ شہر ویانا کے ڈاکخانہ کی اُس پر مہر تھی۔ خط اٹھا کر دیر تک اس کو پڑھتا رہا حالانکہ مضمون صرف اِسی قدر تھا۔

پیارے چچا! پہلے تو اس تکلیف و رنج کی معافی چاہتا ہوں جو اِس وقت آپ کو دیتا ہوں اور پھر یہ عرض کرتا ہوں کہ ایک جرم میں عدالت سے حکم ملا ہے کہ ویانا سے شہر بدر ہو جاؤں۔ اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ میری مدد کیجیےٴ۔ آپ ہی صرف مج کو اس سزا سے بچا سکتے ہیں۔ راقم جان۔

جب ایک دفعہ اس خط کو اور پڑھ لیا تو سفر کا ارادہ مصمم ہو گیا۔ ایک ہاتھ میں بیگ اور دوسرے میں لکڑی لے کر ویانا کو چلنے کے ارادہ سے اٹھا۔ لیکن جب دہلیز پر پہنچا تو مڑ کر حسرت سے اس اجاڑ اور بے سامان گھر کو دیکھا جس میں مدت تک امن و عافیت کے ساتھ زندگی بسر کی تھی۔ دل سے ایک آہ نکلی اور فوراً گویا کسی سحری کشش سے مجبور ہو کر اپنے باجے کے قریب چلا آیا۔ اور جو کچھ ہاتھوں میں تھا پھینک کر باجے کے پردوں پر اُنگلیاں دوڑانے لگا۔ آوازیں بلند ہوئیں۔ افسردہ چہرہ انتہائے مسرت کے اثر سے خود بخود شگفتہ و روشن ہوتا گیا اور ساز کی جاں فزا صدائیں آسمان کی طرف بڑھیں جو حقیقی وطن خدا کی تعریف کا ہے۔

جب اِس عالم ترنم میں محو ہوا تو معلوم ہوتا تھا کہ آج اس کی روح اپنے قالب اور اس جہاں سے نکل کر صبر و اطمینان کی متلاشی اس عالم میں پہنچی ہے جو سب سے بالا ہے۔ کچھ دیر کے بعد باجا تھم گیا۔ بڈھے کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے اور ایک آہ سرد بھر کر چلّایا۔

”ہائے میں۔ اور کانوں سے معذور ہو جاؤں! کوئی آواز بھی نہ سُن سکوں“۔

افسوس کہ فنِ موسیقی کا یہ ماہر بالکل بہرا تھا۔

مسافر غریب نے پھر عصا اٹھایا اور گٹھڑی اُٹھا منزل طے کرنے کا ارادہ کیا۔ گھر سے نکلا مگر سڑک کے موڑ پر جب پہنچا تو ایک دفعہ پھر حسرت کی نگاہ سے اس گھر کی طرف دیکھا جہاں دس گیارہ برس ہونے کو آئے تھے کہ قصور سماعت نے دنیا کی آوازوں سے محروم کر کے گوشہ تنہائی میں بٹھا دیا تھا۔ اب کہ قوت سامعہ بالکل معطل تھی۔ موسیقی اور موسیقی کی لذتیں اس کی روح میں متمکن تھیں۔ غرض شہر سے نکل کر جنگل اور دیہات میں گذر ہوا۔ تنگ دستی نے مجبور کیا تھا کہ سفر پیدل کیا جائے۔ منزل ختم نہ ہوئی تھی کہ رات ہو گئی۔ جب اندھیرا زیادہ ہوا تو چلتے چلتے ایک گاؤں میں دہقان کی جھونپڑی کے سامنے ٹھہر گیا۔ سمجھا تھا کہ رات ہونے سے پہلے ویانا پہنچ جاؤں گا جو بیڈن سے 30میل تھا۔ بڑی ہمت سے رستہ کاٹا لیکن آخر کار رات آگئی اور چلنے کی قوت نے جواب دے دیا۔

مجبور دہقان کے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے ایک کم سن لڑکی نکل آئی اور پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ لڑکی نے جو کچھ کہا اسکو مسافر نے نہ سنا، لیکن لبوں کی حرکت سے سوال معلوم کیا اور جواب دیا۔ اے پیاری لڑکی میں مسافر پروری چاہتا ہوں۔ لڑکی نے یہ سنتے ہی کہا۔ اچھا آپ اندر چلے آئیے۔ میرا باپ تو شب گرفتہ مسافروں کی ہمیشہ خاطر و مدارات کرتا ہے۔ جب اس طرح دل سے تواضع ہوئی تو مسافر گھر میں داخل ہو کر بڑے کمرے میں پہنچا۔ جہاں غریبوں کا سیدھا سادا کھانا گرم گرم میز پر چنا تھا۔ اور سارا کنبہ میز کے گرد بیٹھا تھا۔ لڑکی نے جلدی سے باپ کے قریب مہمان کے لیے میز پر ایک اُجلا رومال بچھا دیا اور مہمان بھی اسی میز پر کھانے کو بیٹھا جس پر سارا کنبہ کھانے بیٹھا تھا۔ کھانے سے فارغ ہو کر مہمان آتشدان کے قریب جا بیٹھا۔ جہاں جاڑے میں راحت پہنچانے والی آگ خوب روشن تھی۔ ماں اور بیٹی نے جلدی سے میز پر سے کھانے کی چیزیں ہٹا لیں اور دہقان نے اپنا پُرانا ہارپ سی کورڈ باجا کھولا اور تینوں لڑکوں نے اپنے اپنے ساز دیوار پر سے اتار لئے۔

باپ بیٹوں نے باجوں کو ملایا اور ماں بیٹی اپنا اپنا کام لے کر آگ کے پاس جا بیٹھیں جہاں اکیلے ایک چراغ نے سارے گھر میں اُجالاکر رکھا تھا۔ باپ نے شروع کرنے کے لئے لڑکوں کی طرف اشارہ کیا اور چاروں نے مل کر ایک گت اس خداداد ملکہ اور خوبی کے ساتھ بجانی شروع کی جو خاص اہل جرمنی کو اور مقاموں کے مقابلہ میں حاصل ہے۔ رفتہ رفتہ ان کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ طرح طرح کی حرکات چہروں سے ادا ہونے لگیں۔ حتیٰ کہ سب کو اس درجہ محویت ہوئی کہ گویا اس عالم ہی میں نہ تھے۔ دونوں عورتیں دم بند کئے راگ سنتیں۔ یہاں تک کہ جو کچھ ہاتھوں میں تھا زمین پر گر پڑا۔ باجے بھی آخر کار بند ہو گئے۔ اور مسرت آمیز نگاہیں ایک سے دوسرے پر اپنا کام کرنے لگیں۔ لڑکی اٹھی اور باپ کے سفید سر کو محبت کے جوش میں چومنے لگی۔ اور سب اس بات کو بھول گئے کہ ایک غیر بھی اس وقت گھر میں موجود ہے۔ مہمان خاموش بیٹھا یہ سب کیفیتیں محبت کی نگاہ سے دیکھتا رہا۔ لیکن بہرے کانوں نے ایک آواز بھی اُن دلکش نعمتوں کی نہ سننے دی تھی جنہوں نے اُس کے غریب میزبانوں پر اس قدر اثر کیا تھا۔

آخر کو نہ رہا گیا اور کانپتی آواز سے بڈھے مسافر نے کہا۔ ”اے میرے مہربانو۔ تم بڑے قسمت والے ہو کہ راگ سن سکتے ہو۔ افسوس یہاں تو برسوں ہوئے کہ موسیقی کی دل آویز صدائیں جو خدا کی آواز ہیں سنائی دیتی تھیں۔ اب تو یہ حال ہے کہ اگر کبھی کسی دُھن میں جنگل کو نکل جاتا ہوں تو ہوا کے جھونکے جو میرے گرد چلتے ہوتے ہیں اپنی قوت کی وجہ سے مجھ کو محسوس ہوتے ہیں لیکن ان کا شور جب کہ ہوا تیز ہو کر بڑے بڑے عالیشان درختوں کو ہلا ڈالتی ہے یا ہلکی ہلکی چل کر نازک شاخوں اور پھولوں سے گذرتی ہوئی قدرت کے اس نغمے میں جس میں عالم کا ہر ذرّہ شریک ہے، گھل مل جاتی ہے، مطلق نہیں سُن سکتا۔ جب کبھی بہار کے موسم میں دن چھپے گھر آتا ہوں تو یہ دیکھ لیتا ہوں کہ غریب چرواہے کی پیاری صورت والی لڑکی اپنے گلے کو چشمہ پر پانی پلانے لے جاتی ہے لیکن اس کی سیدھی سادی سہانی الاپیں جن میں وہ اپنا چہیتا گیت گاتی جاتی ہے میرے کانوں تک نہیں پہنچتیں۔ جنگل کے خوش آواز پرند جب وہ پہاڑ کی چوٹی سے اُڑ کر گھاٹی میں اترتے ہیں جہاں اُن کے آشیانے آنکھ سے اوجھل ہیں، ہوا میں اڑتے دیکھتا ہوں لیکن ان کے چہچہے جو صحرا میں نسیم اور صرصر کی پیدا کی ہوئی آوازوں سے اپنا ساز ملاتے ہیں، مج کو نہیں سنائی دیتے۔ اے نغمہ و سرور! تم میری جان ہو۔ میری روح ہو لیکن وائے نصیب تمہارے احساس کی قدرت مجھ میں نہ رہی۔ اے میرے مہماں نوازو تم مج کو وہ کاغذ دیکھ لینے دو جنہوں نے تمہارے دل پر ابھی ابھی ایسا اثر کیا تھا۔ یہ کہ کر کرسی سے اُٹھا اور وہ کاغذ جس پر موسیقی کی علامات میں گتیں بجانے کے اشارے لکھے تھےاور جن کو دیکھ دیکھ کر باپ بیٹوں نے باجے بجائے تھے اُٹھا لئے۔ کاغذ دیکھتے ہی دفعتاً اُسکا چہرہ زرد پڑ گیا۔ اور بے ہوش ہو کر کرسی پر گر پڑا۔

پہلے ہی صفحہ پر جہاں مصنف کا نام ہوتا ہے اپنا نام بتھوون لکھا دیکھا۔ گرتے ہی سب لوگ گرد جمع ہو گئے اور اس حالت کو پوچھنے لگے۔ کچھ دیر میں جب کسی قدر ہوش آیا اور آواز پر قدرت ہوئی تو کرسی سے کھڑا ہوا اور بولا۔ ”اے میرے دوستو میں ہی وہ بد نصیب ہوں جسکو بتھوون کہتے ہیں اور یہ گتیں اور راگ مجھی بد نصیب کی تصنیف و تالیف سے ہیں“۔ اِس نام کے سنتے ہی دہقان نے فوراً سر سے ٹوپی اُتار لی اور تعظیم دینے کو جُھک گیا۔ لڑکوں نے بھی فوراً سر جھکائے۔

بتھوون نے ان جوان لڑکوں کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں دبا لیا اور خوشی سے رونے لگا۔ دہقان نے بتھوون کے ہاتھ کو بوسہ دیا کیوں کہ یہ وہ باکمال تھاجس کی تصنیف سے دن بھر کے تھکے ہارے کسانوں اور مزدوروں کا کچھ دیر کے لئے غم غلط ہوا کرتا تھا۔ یہ ہی وہ ہردلعزیز شخص تھاجس کی ویانا میں ایسی عزت تھی کہ اگر راستہ میں نظر آتا تھا تو لوگ سامنے سے ہٹ جاتے تھے کہ کہیں اُس کے خیال میں مخل نہ ہوں۔ اور بچہ بچہ دیکھ کر کہتا تھا کہ ”دیکھو بتھوون وہ جاتا ہے“۔ گو دنیا کے غموں اور تکلیفوں نے بتھوون کی زندگی پر موت کی مُہر لگا دی تھی۔ لیکن کمال کا نور اُس کی شریف پیشانی پر اب بھی ہر وقت برستا تھا۔

اس کے بعد بتھوون خود باجے کے قریب جا بیٹھا اور لڑکوں کو ساز لینے کا اشارہ کر کے اپنی تصنیف کی ہوئی چیزیں شروع کر دیں۔ اور راگ کی دُھن میں از خود رفتہ ہو کر وہ چیزیں بجائیں اور سنائیں جن کو خود پہلے نہ جانتا تھا۔ سُننے والے سمجھ رہے تھےکہ آج استاد کی روح اُن بندشوں کو توڑ کر، جنہوں نے دنیا کی زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا، بڑی شان و شوکت سے آسمان کو اُٹھ رہی ہے۔

بتھوون کے ہاتھوں میں باجے نے بھی آج غیر معمولی آوازیں سنائی تھیں۔ کبھی اُس کی صدائیں ایسی پُر شوکت ہوتی تھیں جیسے طوفان میں بادل کی گرج اور کبھی ایسی لطیف و نحیف جیسے جان کنی میں مرنے والے کی آہیں۔

افسوس! بتھوون کا یہ اخیر شغل تھا۔ اِسی میں رات زیادہ آ گئی جس بستر پر دہقان سویا کرتا تھا وہ مہمان کے لئے بچھا گیااور سب نے اصرار کیا کہ اِسی پر آرام کرے۔

جب رات زیادہ ہو گئی تو بتھوون کو بخار ہو گیا اور گرمی سے ماتھا بہت جلنے لگا۔ ٹھنڈک کے لئے ہلکے کپڑے پہنے ہوئے باہر ہوا میں نکل آیا۔ ہوا اِس وقت بہت سرد اور تیز تھی۔ درختوں کی شاخوں میں ہچکیاں اور سسکیاں لے لے کر روتی تھی۔ بن اور گاؤں پر زور کا مینہ برس رہا تھا۔ غرض جب کمرے کے اندر واپس آیا تو ہاتھ پاؤں بے حِس و حرکت معلوم ہونے لگے۔ استسقا کا مرض پہلے ہی سے ہو چلا تھا۔ وہ پھر عود کر آیا اور قلب تک اُس کا اثر ہوگیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ اب کوئی تدبیر کارگر نہ ہوگی۔ آخر کار بمشکل ویانا کے شہر تک مریض کو پہنچایا۔ وہاں ایک ڈاکٹر نے آ کر دیکھا اور زندگی سے مایوسی ظاہر کی۔

ہُومل جو بتھوون کا بڑا رفیق تھا یہ خبر سنتے ہی دوڑ آیا کہ جو کچھ ہو سکے آخر وقت میں دوست کی خدمت کرے لیکن جب پہنچا تو بتھوون کے ہوش سلامت نہ رہے تھے دوست کو دیکھ کر مریض نے کچھ کہنا چاہا لیکن جن لفظوں کو ادا کرنے کی کوشش تھی وہ مردہ لبوں تک آکر خود بے جان ہو گئےاور منہ سے کوئی بات نہ نکلی۔ لیکن پھر بھی دوست کو کچھ پہچان لیا اور شکریہ میں لبوں پر ایک افسردہ تبسم ظاہر ہوا۔ ہُومل غم اور محبت سے بے تاب ہو گیا۔ اور مریض کے ہاتھوں کو جو برف ہو چکے تھےاپنے ہاتھوں میں لیا۔ جب مرنے والے کو دوست کا ہاتھ محسوس ہوا تو ایک پل کے لئے کچھ ہوش سا آیا اور پتھرائی آنکھوں میں کچھ آب آئی۔

تکیہ پر سر آہستہ سے ڈھلکا اور ہلکی ہچکی کے ساتھ روح پرواز کر گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

أخبار ذات صلة