قاضی ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم۔ یہ ایک ایسا نام ہے کہ اسلام نے اس نام کے مثل شاید دو ہی چار اور ناموں کی عزت کی ہو گی۔دین پیغمبر عرب صلوۃ اللہ علیہ وعلی آلہ کو اس پایہ کے بہت کم لوگ ملے۔امام محدوح کے عہد سے آج تک دنیائے اسلام اُن کے نام کو واجب التعظیم مان رہی ہے۔امام اعظم ابو حنیفہ کو فی رحمہ اللہ کے شاگرد رشید اور اپنے عہد کے مرجع امام تھے۔امام اعظم ابو حنیفہ کو جیسے شاگرد امام ابو یوسف ملے ہیں ویسا نامور اور استاد کے نام کو روشن کر دینے والا شاگرد شاید دنیا میں کسی استاد کو نہ نصیب ہوا ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ابو حنیفہ کے معاصر محد ثیں اور فقہاے اسلام نے انہیں اہل الراے کا لقب دے کے مقبولیت کی درجے سے گرانا چاہا تھا ۔اور بے شک گرا دیا ہوتا اگر امام اعظم ممدوح کو امام ابو یوسف کا ایسا گراں پایہ شاگرد نہ مل جاتا۔ امام ابو یوسف ہی کی ذہانت و ذکاوت، قوت اجتہادی اور زمانہ شناسی کا نتیجہ تھا کہ جمہور فقہاے اسلام جو امام اعظم کے حریف مقابل تھے انہوں نے سب کی قوت توڑ کے مقبولیت عامہ کا تاج زبردستی چھینا اور اپنے مقدس استاد کے مبارک سر پر رکھ دیا۔

اس نام نے دنیاے اسلام کے بہت بڑے اور سب سے غالب فریق کے ہر سینہ میں اپنی پاک محبت پیدا کر لی ہے۔ اور کون ہے جو اس واجب التعظیم نام کو نہیں جانتا۔ مگر اس کے چاہنے والے بہت کم ہیں کہ وہ مقتداے اسلام جس نے امام اعظم کے دامن تربیت میں نشونما پا کے “اناولاغیری” کا جھنڈا بلند کیا، اصل میں کون تھا۔ اور کیونکر اس مرتبہ عالی کو پہنچ گیا۔ امام ابویوسف کے حالات ابتدائی سُن کے زمانے بھر کو حیرت ہو گی۔ اور شاید بہت سے نرم طبیعت والوں کے دل بھر آئیں گے۔

113ھ میں امام ابو یوسف پیدا ہوئے۔جن لوگوں کی تقدیر کوئی نیا رنگ دکھانیوالی ہوتی ہے اکثر زمانہ ان کے ساتھ دشمنی کرتا ہے۔ چنانچہ ہنوز بچہ ہی تھے کہ قسمت نے باپ کے دامن شفقت کو سر پر سے اُٹھا لیا۔ یہ بھی ایک ایسی برکت تھی کہ قدرتی ہی طور پر حضرت خاتم النبین صلعم کی اقتدا نصیب ہو گئی۔ غریب مان جس کو زمانے نے بیوہ بنا دیا تھا، جب بالکل بے مونس و بے غمگسار ہوئی تو اُس نے اپنی اور اپنے ہونہار بچہ کی جان پالنے کے لیے چرخہ کاتنا شروع کیا۔ مگر کب تک؟ لڑکے نے ابھی یونہی سے ہوش سنبھالے ہوں گے کہ اس دکھیا نے مصائب دنیاوی سے تنگ آ کر اپنے اُس بچہ کو جو دُنیا کا بہت بڑا امام ہونے والا تھا ایک دھوبی کے سپرد کیا اور کہا۔ اس بچہ کو میں تمہارے سپرد کرتی ہوں۔ اسے کپرے دھونا سکھا دو۔اور اس کا خیال رکھنا کہ یہ بے باپ کا بچہ ہے۔اُس روز سے امام ممدوح دھوبی کے ساتھ گھاٹ پر جانے لگے گر وہاں دل نہیں لگتا تھا۔ آخر ایک روز کچھ ایسی الجھن ہوئی کہ دھوبی کو چھوڑ کے امام اعظم کے درس گاہ میں آئے۔ امام اعظم کے پند و نصائح نے دل پر ایسا اثر کیا کہ وہی پہلی تاریخ امام ابو یوسف کی تعلیم کی ہو گئی۔ شام کو گھر پہ آئے۔خدا خدا کر کے صبح آئے اور صبح ہوتے ہی پھر وہیں امام اعظم کی مجلس درس میں جا کے حاضر ہوے۔ امام اعظم نے بھی شفقت کی نگاہ سے دیکھا۔ اور اِن کے شوق نے انھیں ان کی طرف یہ حیثیت ایک شفیق استاد کے متوجہ کر دیا۔ امام ابو یوسف اپنے اُس زمانے کے حالات خود ہی تحریر فرماتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں “میں گھر سے نکل کے روز بلاناغہ امام ابو حنیفہ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ دھوبی نے یہ غفلت دیکھ کے میری ان سے شکایت کی۔ اُس نے مجھے بہت برا بھلا کہا ۔آخر یہ معمول ہو گیا کہ میں ادھر امام اعظم کے درس گاہ میں ھاضر ہوا اُدھر میری ماں وہاں پہنچی اور سخت و سست کہہ کے مجھے مجھے وہاں سے اُٹھا لائی۔ میں مجبور اور بے بس ہو کے امام صاحب کی صحبت چھوڑ کے دھوبی کے پاس جاتا تھا ۔ایک روز عجیب اتفاق ہوا۔ میں امام ابو حنیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔وہ مجھے درس دے رہے تھے کہ میری ماں آگئی۔ میں اُسکے خوف سے سہم کے امام صاحب کی صورت دیکھنے لگا۔ میری ماں مجھ سے اس قدر تنگ آگئی تھی کہ خود امام صاحب کیطرف متوجہ ہو کے کہنے لگی”آپ نے میرے لڑکے کو اس سے روک کے کہ دو پیسے کمائے پڑھنے لکھنے کا شوق دلا دیا۔ چرخہ کات کات کے میں اپنی اور اسکی جان پالتی ہوں۔ اور آپ کو اس کی فکر نہیں ہوتی کہ میں کس مصیبت میں مبتلا ہوں۔” امام اعظم نے یہ سن کے کہا”اے عورت جا اپنا کام کر تیرے لڑکے کے اطورا سے معلوم ہوتا ہو کہ یہ خوش نصیب ہو گا۔سُن ظاہر میں تو یہ میرے سامنے بیٹھا درس لے رہا ہے ۔مگر اصل میں یہ روغن پستہ کے ساتھ فالودہ ملا ملا کے کھا رہا ہو”۔ یہ سُن کر میری ماں کو اس قدر غصہ آیاکہ امام عالی شان کی خدمت میں گستاخی اور دریدہ دہنی کرنے لگی۔ اس نے جھنجھلاکے کہا”معلوم ہوتا ہو تم میں لغویت آگئی ہےاور تمھاری عقل جاتی رہی ہے” اتنا کہا اور پیٹھ پھیر کے چلی گئی۔مگر میں نے کچھ خیال نہ کیا۔اس لعنت وملامت پر بھی میں امام اعظم کے درس گاہ میں حاضر ہوتا رہا چونکہ اب ماں مزاحمت نہیں کرتی تھی لہذا میں التزام سے شریک درس ہونے لگا۔ اور مجھے امام صاحب کے افادات کا اس قدر شوق تھا کہ جو لفظ ان کی زبان سے نکلتا اسے شوق سے سنتا تھا اور یاد کر لیتا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *