امام ابو یوسف ؒ کے مثل شاید ایام طالب علمی میں اور کسی شخص نے تکلیفیں نہ اٹھائی ہوں گی۔ اکثر دو دو روز فاقی ہی میں گزر جاتے تھےاور کوئی چیز کھانے کو نہ نصیب ہوتی تھی۔ فرماتے ہیں جزئیہ مخارج خانگی کا اجرا نہ پانا درکنار، افلاس مجھ پر اس قدر طاری تھا کہ دو پیسہ کا کاغذ بھی نہ جڑتا تھا۔ جس پر استاد کے املا(لکچر) کو لکھ لیتا۔ بڑی محنت اور جفاکشی سے میں نے بکریوں کے شانہ کی چپٹی چپٹی ہڈیاں فراہم کی تھیں جو کچھ لکھنا ہوتا تھا انھیں ہڈیوں پر لکھ لکھ کے رکھ لیا کرتا تھا۔ اسی افلاس و فلاکت نے مجھے لڑکے سے جوان کردیا۔میری شادی بھی ہو چکی تھی۔ مگر قسمت کی جانب سے یہ ایک اور بہت بڑی دشمنی تھی۔ اس لیے کہ اپنی ہی زندگی خدا جانے کس طرح بسر ہوتی تھی اب جو ایک اور بار سر پر آپڑا تھا۔ مگر شوق علم نے امام اعظم علیہ رحمۃ کا دامن کسی طرح نہ چھوڑنے دیا۔ نتیجہ ہی تھا کہ میں بھی فاقہ کرتا تھا اور میرے ساتھ وہ پاک دامن بھی فاقہ کرتی تھی۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ امام صاحب کی صحبت با برکت سے میں گھر میں آیا تو شدت گرسنگی سے یہ عالم تھا کہ عقل و ہوش رحصت ہوے جاتے تھے۔ جلدی سے میں اپنے گھر میں داخل ہوا اور دوڑ کے بیوی سے کہا “اس وقت میں بھوک کے مارے نہایت بیتاب ہوں۔ اگر کچھ کھانے کو ہو تو لے آؤ”۔ وہ نیک بخت بھی خدا جانے کب سے بھوکی بیٹھی تھی۔ میری زبان سے یہ کلمہ سنتے ہی اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ جھلاَّ کے کوٹھری میں دوڑی گئی اور وہ سب ہڈیاں جن پر میں نے استاد کا درس لکھا تھا دستر خوان میں باندھ کے میرے سامنے لا کر رکھ دیں۔اور کہا تمھارے ہاتھوں گھر میں جو کچھ گرہستی جمع ہوئی وہ تو یہی ہے۔ اور تم سے کاہل اور نکھٹو کی یہی سزا ہو کہ یہ ہڈیاں سامنے لاکے ڈال دی جائیں “۔اُس کی اس طعن آمیز تقریر نے مجھ پر ایسا اثر کیا کہ میں نے نہایت ہی بے بسی اور مجبوری کے ساتھ علم سے ہاتھ اُٹھایا اور درپے معاش ہوا۔ امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ نے جب کئی روز تک مجھے نہ دیکھاتو شاگردوں سے میرا حال دریافت کیا۔ انھوں نےیہ داستان بیان کردی۔یہ سُن کر انھیں مجھ پر ترس آ گیا۔اور مجھے بلا بھیجا۔اور میرا کچھ وظیفہ مقرر کردیا۔ یہ پہلی تاریخ ہے جس روز سے امام ابو یوسف کو اطمینان اور فراغت کے ساتھ علم کی طرف متوجہ ہونے کا موقع ملا۔

دمیری شافعی نے لکھا ہے کہ ابو یوسف، امام ابو حنیفہ کے حلقہ درس میں معمولا اور بالاالتزام شریک ہوا کرتے تھے۔ مگر اتفاقاً آتے آتے ایک مرتبہ ان کا آنا سوقوف ہو گیا ۔امام ابو ؔحنیفہ اور نیز طلبہ نے بہت جستجو کی مگر کچھ پتا نہ لگا کہ کہاں غائب ہو گئے ہیں۔ اور کیوں چلے گئے۔ چند روز کے بعد وہ خود ہی آ بھی گئے۔ امام صاحب نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ہونہار شاگرد کے دل میں کتب تواریخ ملتعلقہ مغازی کی پڑھنے کا شوق پیدا ہوا تھا۔ اور اسی جستجو میں کوفہ چھوڑ کر دیگر بلاد اسلامیہ میں چلے گئے تھے۔ الغرض یہ عمل ہر طرح سے ثابت ہے کہ امام ابوؔ یوسف کو ایام طالبعلمی میں علم کا ایسا شوق تھا کہ اپنی راحت و آرام کا کبھی خیال بھی نہ کیا۔ آخر میں علم حدیث کا شوق ہوا۔اور اس عہد کے مشاہیر علما و محدثیں کی خدمت میں حاضر ہو کے احادیث و آثار کے تتبع میں پوری سرگرمی دکھائی۔ابوؔ اسحٰق شیبانی، سُلیمان تمیمی، یحییٰ بن سعید انصاری، اعمشؔ، ہشام بن عروہ، عطاء بن صائب اور محمد بن اسحٰق بن بسیاریہ اس زمانے کے مشہور آئمہ ہیں اور وہ لوگ ہیں جن کی شاگردی کا فخر فخر امام ابو ؔ یوسف نے حاصل کیا۔ بعض مورخین کا بیان ہو کہ امام ابو یوسف ہر صحبت درس میں بالکل اسی ذوق و محویت کے ساتھ جاتے تھے جس طرح کسی کا لڑکا گم ہو گیا ہو اور وہ اسکی جستجو میں ہر جگہ مارا مارا پھرے۔ اسی ذوق علم نے آخر انھیں کامیاب کرا کے مسند اقتدار پر بٹھا دیا۔ امام ابو حنیفہ ؒ نے انتقال فرمایا۔ اور ایک صاحب فتویٰ عالم کی حیثیت سے امام ابو یوسف کوفہ اور بغداد میں زندگی بسر کرنے لگے۔ اس زمانے میں بھی امام ابوؔ یوسف پر ہمیشہ افلاس اور تنگدستی کا عالم رہا کرتا تھا۔ علم کا نتیجہ اگر دنیاوی ثروت ہو تو اس سے ہنوز امام ممدوح بالکل بہریاب نہیں ہو سکے تھے۔ مگر قسمت نے ان کے لیے ناموری۔شہرت۔دولت۔اور حکومت کے بہت کچھ سامان فراہم کر رکھے تھے۔ جن تک ابھی ان کا ہاتھ نہیں پہنچا تھا۔ اس مرجعیت اور صاحب فتوی ہونے کے زمانے میں بھی صرف بے زری کی وجہ سے یہ حال تھا کہ اُن کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا۔ اُس نے ارادہ کیا کہ اپنے دروازے پر ایک عمارت اپنی حد سے زیادہ زمین لے کر بنوائے جس کی وجہ سے راستہ تنگ ہوا جاتا تھا۔ اور خود امام ممدوح اور نیز دیگر اہل محلہ کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ امام ابو ؔیوسف اس یہودی کی پاس گئے اور کہا “آپ کی اس عمارت سے راستہ تنگ ہوا جاتا ہو اور تمام اہل محلہ حیران ہیں۔” اس یہودی نے ان کے علم و فضل کا ذرا بھی پاس نہ کیا اور جواب میں بہت کچھ لعن و طعن کے بعد کہنے لگا ’’ابھی آپ رہنے دیں۔ جب لوگ آپ کو فنس میں بٹھا کے بڑی شان و شوکت سے ہٹو بچو کرتے ہوئے لائیں گے تو میں اس عمارت کو کھدوا ڈالوں گا اور آپ کے لیے راستہ کھل جائے گا۔‘‘ خلاصہ یہ کہ اس نے ان کا کچھ بھی پاس و لحاظ نہ کیا اور عمارت بنوا لی۔خدا کی قدرت !اس کے چند ہی روز بعد خدا نے انھیں اس مرتبہ پر پہنچایا کہ بغداد کے قاضی القضاۃ(چیف جسٹس)اور تمام دنیاے اسلام کی سپریم کورٹ کے میر مجلس مقرر ہو گئے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *