امام ابو یوسف جس ذریعہ سے رشید کے دربار میں پہنچے اس میں کسی قدر اختلاف ہو مگر غالباً صحیح یہ ہو کہ ہارون رشید زبیدہ خاتون کی کسی پری جمال اور ناز آفرین لونڈی کو دیکھ کے یکا یک ایسا والہٴوشیدا بلکہ ازخود رفتہ ہو گیا کہ کھینچ کے اسے گود میں بٹھا لیا۔ اور اختلاط کرنے لگا۔ مگر عین اس وفور شوق کے عالم میں خیال آیا کہ یہ لونڈھی تو زبیدہ کی ہے۔ مجھ پر کیونکر جائز ہو سکتی ہے۔ یہیں دل میں اس بات کا آنا تھا کہ رشید نے اس لونڈی کو چھوڑ دیا۔ رفتہ رفتہ یہ خبر خود زبیدہ کے کان تک پہنچی ۔اسکو رشید کی یہ حرکت نہایت ناگوار گزری۔ خود خلیفہ کے پاس آئی اور غصہ میں خدا جانے کیا کچھ کہہ ڈالا۔ منجملہ اور کلمات کے زبیدہ کی زبان سے ایک یہ کلمہ بھی نکلاتھا ۔’’اے دوزخی میرے سامنے سے چلا جا۔مارے غصہ کے میری تن بدن سے آگ لگی جاتی ہے‘‘۔ اس پر ہارون نے طیش کھا کہ کہا ’’جب میں دوزخی ہوں اور تمھارا چہرہ بہشتی ہو تو مجھ سے تم سے کیا تعلق۔جاؤ تم پر طلاق ہے۔‘‘ کہنے کو تو جوش کے عالم میں دونوں کہہ گئے۔ بعد میں جب غصہ فرو ہوا تو دونوں پریشان ہوئے کہ اب کیا کیا جائے۔ یہ طلاق کی تو بہت بری ہوئی۔ رشید نے تمام علمائے بغداد کو جمع کر کے اس مسئلہ کو پوچھا۔ سبھوں نے غور کیا مگر کوئی ایسی صورت نہ بتا سکا کہ باہمی تعلق قائم رہ سکے۔ آخر رشید نے اہل دربار سے پوچھا کہ ’’امام ابو حنیفہ کے شاگردوں میں سے کوئی شخص نہیں ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا ’’ہاں ابو ؔیوسف نام ایک عالم ہیں مگر اُن کی زندگی نہایت فقر و فاقہ کے ساتھ بسر ہوتی ہے ‘‘۔رشید نے کہا ’’مجھے ان کے علم و فضل سے غرض ہے، امیری و غریبی سے کیا مطلب ۔فوراً ان کو دربار میں لے آؤ۔‘‘ لوگ گئے اور امام ابو ؔیوسف کو محل سلطانی میں حاضر کیا۔ یہ پہلا روز تھا کہ اُس امام عالیشان کی شاہی دربار میں رسائی ہوئی۔ اس وقت محل میں تمام عمائد اور علما و فضلاے بغداد جمع تھے۔ جن علما نے صدر کی جگہ پر قبضہ کر لیا تھا، اُنھوں نے ابو یوسف کی تعظیم و تکریم بھی نہ کی۔ اور ان کی غربت نے یہ اثر کیا کہ کسی نے ان سے اتنا بھی نہیں کہا کہ ’’یہاں آکر بیٹھیے‘‘۔ بیچارے خلیفہ کو با ادب سلام کر کے اُسی مقام پر بیٹھ گئےجہاں جوتے اتارے جاتے تھے۔ اب رشید ان کی طرف متوجہ ہوا اور صورت مسئلہ بیان کر کے پوچھنے لگا کہ ’’آپ کے نزدیک اس مصیبت سے نجات پانے کی کوئی صورت نکل سکتی ہے؟‘‘ امام ابو ؔیوسف نے کہا “ہاں میرے خیال میں اس مسئلہ کا کافی اور شافی جواب ہے۔ مگر جس ذلت کے مقام پر بیٹھا ہوں یہاں بیٹھ کے اس کو نہ عرض کروں گا۔ اگرچہ جانتا ہوں کہ یہاں بیٹھنے سے میری لیاقت میں کچھ کمی نہیں ہو گی اور علی ہذاالقیاس صدر مقام پر بیٹھنے سے کچھ لیاقت زیادہ نہ ہو جائے گی۔اور اس کا بھی مجھے کچھ ملال نہیں کہ جو لوگ جس جگہ کے مستحق نہ تھے وہ وہاں بیٹھے ہیں ۔ مگر علم خدا کی نعمت ہو اسکی قدر و منزلت کرنا میرا فرض ہے۔‘‘ یہ سُن کے ہارون رشید نے اُن کو نہایت تعظیم و تکریم سے صدر مقام میں بٹھلایا۔ اور جواب طلب کیا۔ تمام علمائے دربار حیرت و استجاب سے اس کاروائی کو دیکھ رہے تھے۔ امام ابو یوسف نے صدر مقام پر بیٹھنے کے بعد بے ادبوں کی تنبیہ و تہدید کے لیے اور بھی بہت سے جملے کہے۔ اور خلیفہ سے کہا۔ ’’ہاں اب آپ صورت مسئلہ بیان کیجیے۔‘‘ رشید نے دوبارہ بیان کیا تو امام ابوؔ یوسف نے رشید سے پوچھا امیرالمومنین ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے کہ جب آپ نے کسی گناہ کے ارتکاب کا قصد کیا اس وقت آپ کے دل میں خوف خدا اور ندامت تھی؟” رشید نے کہا بیشک۔ بلکہ یہ واقعہ مختلف فیہ بھی اس امر کی شہادت دے رہا ہے۔ اگر مجھے خدا کا خوف نہ ہوتا تو میں زبیدہ کی لونڈی سے کیوں دست بردار ہو جاتا؟‘‘ یہ سن کر امام ممدوح نے کہا ’’تو مجھے یقین آگیا کہ آپ جنتی ہیں۔ لہٰذا طلاق بھی نہیں ہوئی کیونکہ طلاق آپ کے جہنمی ہونے کے ساتھ مشروط ہے‘‘ دیگر علماے حاضرین نے مخالفت کی اور کہا ’’واہ! یہ کہاں سے ثابت ہے؟ اور آپ کو کیوں کر یقین ہو گیا کہ امیرالمومنین حکماً جنتی ہیں؟‘‘ امام ابو یوسف نے کہا ’’خلیفہ کے جنتی ہونے کا ثبوت خود قرآن مجید میں موجود ہے۔وَاَمَّامَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَیالنَّفْسَ عَنِ اْلھَوَیٰ فَاِنَّ اْلجنَّۃ َ ھِیَ اْلمَاوٰی یعنی جس نے خدا کے خوف سے اپنے نفس کو خواہش شیطانی سے باز رکھا ۔جنت اُس کاعشرت کدہ ہو گی۔‘‘ سب لوگ حیرت میں رہ گئے۔ اور ہارون رشید کو یہ فتویٰ ایسا پسند آیا کہ اُس نے امام صاحب کو دولت سے مالا مال کر دیا۔ اور قاضی القضاۃ بغداد کے عہدے پر مامور کر کے خلعت قضا مرحمت کیا۔ خدام دربار نے واپسی کے وقت امام ابوؔ یوسف کو لباس فاخرہ پنھایا۔اور ایک عمدہ فنس میں بٹھا کے (جو اس عہد میں علمائے مستند کی سواری تھی) رخصت کیا۔ امام ابو ؔ یوسف جب اُس یہودی کے مکان پر پہنچے ۔حسب وعدہ اس یہودی سے اسکی عمارت کھدوائی تو فنس ان کےدروازے پر آئی۔
علامہ ابن خلکان نے امام ابو یوسف کے شرف حضوری دربار سے ممتاز ہونے کی دوسرے وجہ بیان کی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ دارالخلافت بغداد کے کسی سردار نے ایک بار کسی امر سے باز رہنے کی قسم کھائی۔ اور اسکے بعد اُس سے اتفاقاً کوئی ایسا فعل سرزد ہوا کہ اپنی قسم کے ٹوٹ جانے کا شک ہو گیا۔ وہ مسئلہ پوچھنے کے لیے کسی فقیہ کو ڈھونڈھتا پھرتا تھا، لوگ اُسے امام ابو یوسف کے پاس لے آئے۔ انھوں نے تمام حالات اور نوعیت مسئلہ سے مطلع ہو کر فرمایا اس سے تیری قسم نہیں ٹوٹی۔اس لیے کہ شک سے احکام شرع پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ان کی زبان سے اپنی تمنا کے موافق یہ فتوی سُن کر وہ ایساخوش ہوا کہ بہت سا روپیہ اور اسباب دولت ان کی نذر کیا۔اور ایک عمدہ اور شاندار مکان بھی خرید کر کے امام صاحب ممدوح کے سپرد کیا۔ اب امام ابو یوسف کی زندگی ذرا اطمینان سے بسر ہونے لگی۔ چند روز بعد اتفاقاً وہ سردار فوج ہارون رشید کے پاس گیا۔ رشید اس وقت مغموم تھا ۔سردار نے سبب تفکر پوچھا تو کہنے لگا کہ ایک شرعی امر کی وجہ سے میں نہایت حیران ہوں۔ کسی فقیہہ اور مفتی کو لے آؤ تا کہ اُس سے دریافت کر وں کہ کیا کیا جائے۔ اُس سردار نے امام ابو یوسف کو بلوا کے دربار میں پیش کیا۔رسم مسنونہ سلام کے بعد رشید نےامام ممدوح سے نام پوچھا۔ انھوں نے بتایا کہ میرا نام یعقوب ہے۔رشید نے پوچھا ’’اگر امام وقت کسی شخص کو خود کسی زنا کی حالت میں مبتلا دیکھے تو کیا صرف رویت کی وجہ سے امام پر فرض ہے کہ اس پر حد شرعی جاری کرے؟‘‘ امام صاحب نے کہا ’’نہیں‘‘ یہ سُن کر رشید نے سجدہ کیا ۔اور سجدہ سے سر اٹھا کے دریافت کیا ’’سبب؟آپ نے کس اصول پر یہ فتویٰ دیا؟‘‘ امام صاحب نے کہا ’’خود حضرت رسالت پناہ صلعم کے قول سے۔ آپ نے فرمایا ہے ۔ ’’اَوْ رَوالحدّ بِا الشبھاتِ‘‘ یعنی شبہ و شک سے حدود شرعیہ کو ساقط کر دو۔ رشید نے کہا ’’یہاں کون سا شک ہوا؟ امام نے خود دیکھا اس کو تو یقین ہے‘‘ امام نے جواب دیا ’’ہم نے تسلیم کیا کہ امام نے خود دیکھ لیا ۔مگر اس رویت سے اُس کو صرف ذاتی علم حاصل ہو جائے گا۔ اور حدود الہٰی امام کے ذاتی علم پر نہیں منحصر ہیں۔ بلکہ اُن کے لیے حسب اصول شرعی شہادت چاہیے۔” یہ جواب کافی سُن کے رشید نے پھر سجدہ کیا۔ اور اس کے بعد بہت کچھ مال و اسباب دے کے اس نے امام ابو ؔ یوسف کو امیر اور دولتمند بنا دیا۔