امام ابو ؔ یوسف کو دنیا نے اتنے دنوں تک اپنی نعمتوں کا مشتاق رکھ کے کامیاب کیا تھا کہ وہ بہت جلد دنیا کی دلچسپیوں کے فریفتہ اور گرویدہ ہو گئے۔ اور سچ پوچھیے تو اُن کی لائف پر یہی ایک دھبّہ ہے جس کی اعتقاد چاہے کسی کے خیال میں نہ آنے دے۔ مگر اصل یہ ہو کہ رشید کی دربارداری اور دولت عباسیہ کے انعام و اکرام نے دل میں دولت کی طمع پیدا کر کے اُن کے قدم کو لغزش دے دی تھی۔ اگر کوئی کتب تواریخ میں ڈھونڈھے تو بہت سے ایسے واقعات ملیں گے جن سے صاف ثابت ہو جائے گا کہ امام ابو یوسف بہ حیثیت ایک فقیہ، ایک عالم، ایک مفتی اور ایک عدالت عالیہ کے جج ہونے کے تو بہت بڑے بلکہ اول درجے کے شخص ہیں۔ مگر بہ حیثیت ایک عابد, زاہد, متورع اور پرہیزگار یا بے نفس شخص کے انکا مرتبہ بہت پیچھے ہے۔

جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفا میں لکھا ہے کہ رشید کی نظر اپنے باپ مہدی کے حرم کی لونڈیوں میں سے کسی پر پڑ گئی۔ اور وہ اس قدر صاحب حسن و جمال اور پریوش حور تمثال تھی کہ ایک ہی نظر میں رشید اس کی نگاہ ناز کا شہید ہو گیا۔ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ اور جوش عشق زیادہ انتظار کی کسی طرح مہلت نہیں دیتا تھا۔ رشید نے اُسی وقت امام ممدوح کو بلوایا امام صاحب سوتے سے اٹھائے گئے۔ اور درباری لباس سے آراستہ ہو کر حاضر دربار ہوئے۔ رشید نے ان کی صورت دیکھتے ہی صورت مسئلہ بیان کی اور کہا ’’وہ لونڈی میرے حرم میں داخل ہونا نہیں منظور کرتی اور کہتی ہو کہ میں خلیفہ مہدی (رشید کے باپ)سے ہم بستر ہو چکی ہوں‘‘۔امام ابو ؔیوسف نے مجرد اس خیال پر کہ عورت کی شہادت مستند نہیں اور اس کے سوا اور کوئی شاہد نہیں ہے۔ اس کو رشید پر حلال کر دیا۔ رشید بہت خوش ہوا۔ اور حکم دیا کہ ابھی آپ کو زرو جواہر اور مال و دولت سے مال مال کر دو۔ لوگوں نے تھوڑی دیر کے بعد آ کے عرض کیا کہ شہر کے اکثر محلوں کے پھاٹک بند ہیں اس وجہ سے اس وقت خزانہ سے روپیہ نہیں نکل سکتا۔ یہ سُن کے امام ابوؔیوسف نے فرمایا ’’ہاں میرے بلانے کے لیے دروازے کھلے ہوئے تھے اور روپیہ دینے کے وقت بند ہو گئے‘‘

وہ خود فرماتے ہیں ایک مرتبہ شب کو میں خواب کے کپڑے پہنے پلنگ پر لیٹا ہوا تھا کہ ناگہاں کسی نے اس زور سے دروازہ دھمدھمایا کہ کان کے پردے اڑے جاتے تھے۔ میں نے لپک کر دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ہرثمہ بن اعین کھڑے کہہ رہے ہیں آپ کو امیرالمومنین نے بلایا ہے۔ اور اس قدر عجلت کی تاکید کر دی ہے کہ آپ جس طرح بیٹھے ہیں یوں ہی چلے چلیے۔ یہ سُن کے میرے دل میں خوف پیدا ہوا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ امیرالمومنین مجھ پر غضبناک ہوں۔ ہرثمہ سے ہزار پوچھا مگر انھوں نے یہی کہا ’’مجھے باکل خبر نہیں کہ آپ اس وقت کیوں بلائے جاتے ہیں‘‘ میں نے کہا “تو اچھا آپ اس وقت جاکے کوئی حیلہ حوالہ کر دیجیے۔ مگر ہرثمہ نے ایک نہ مانی آخر مجبور ہو کے میں نے ہرثمہ سے غسل اور عطر و خوشبو لگانے کی اجازت مانگی۔ اور ان کی اجازت دینے کے بعد خوب پاک و صاف ہو کے اور عطر لگا کےمیں دل میں خوف کھاتا ہوا نکلا۔ در دولت پر پہنچا تو مسرور خلافت کے خاص چوبدار کو ایک اضطراب کے ساتھ اپنا منتظر پایا۔ میں نے اس سے بھی پوچھا کہ اس وقت میں کیوں بلایا گیا ہوں۔ مسرور نے بھی یہی جواب دیا کہ مجھے مطلق خبر نہیں “۔عاجز آکر میں نے پوچھا ’’اچھا یہ تو بتاوٴ کہ امیرالمومنین کے پاس اور کون کون ہے ‘‘مسرور نے کہا ’’سوا عیسیٰ بن جعفر کے اور کوئی نہیں ہو‘‘۔الغرض مسرور مجھے لے کر اندر گیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ امیرالمومنین کی داہنی جانب عیسیٰ بن جعفر بیٹھے ہوئے ہیں اور امیرالمومنین متفکر ہیں۔ میری آہٹ پاتے ہی امیرالمومنین نے پکار کے پوچھا ’’کون‘‘ میں نے اپنا نام لیا۔ ’’یعقوب‘‘۔ امیرالمومنین نے بلایا اور میں نے اندر جا کے سلام کیا اور بیٹھ گیا۔رشید نے کہا میرا گمان ہے کہ اس وقت میرے بلانے سے آپ کے دل میں کسی قسم کا خوف پیدا ہوا ہو گا‘‘ میں نے کہا ’’حضور مجھ ہی پر کیا منحصر ہےمیرے تمام متعلقین اور کل اہل خانہ بد خواس ہو رہے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر رشید کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا ’’آپ سمجھے بھی کہ میں نے اپ کو کیوں بلایا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’امیرالمومنین میں کیا جانوں‘‘ رشید نے عیسیٰ کیطرف اشارہ کر کے کہا ’’میں نے صرف ان کے لیے آپ کو بلایا ہے۔ انھوں نے مجھے نہایت حیران کر رکھا ہے۔ ان کے پاس ایک لونڈی ہے جس کو میں ان سے طلب کرتا ہوں کہتا ہوں چاہو میرے ہاتھ بیچ ڈالو۔ چاہو مجھ پر ہبہ کردو۔ بہرحال جس طرح ممکن ہو مجھے دے دو۔ مگر یہ کسی طرح نہیں مانتے اب میں آپ کے سامنے ان سے کہتا ہوں کہ اگر انھوں نے میری تمنا نہ پوری کی تو پھر اور طرح ان کی خبر لوں گا۔‘‘ یہ سُن کے میں عیسیٰ کی طرف متوجہ ہوا ۔اور کہا ’’کیوں آپ کو کیا ہو گیا ہےجو آپ نہیں دیتے۔لونڈی کون ایسی چیز ہے کہ امیرالمومنین چاہیں اور اُس کے دینے سے انکار کیا جائے جس قدر روپیہ چاہو اس کی قیمت میں لے سکتے ہو‘‘ عیسیٰ نے کہا ’’پہلے تو میری سن لیجیے پھر مجھے جب تک چاہیے گا سمجھاتے رہیے گا۔میں نے لونڈی کے سامنے قسم کھائی ہو کہ اگر تجھے بیچوں یا کسی پر ہبہ کروں تو میری تمام جوروں پر طلاق ہے۔میری تمام لونڈیاں آزاد ہیں اور میرا تمام مال غرباو مساکین پر صدقہ ہے اب آپ ہی بتائیےکہ کیونکر ان مصائب سے نجات پاؤں۔‘‘ عیسیٰ کی تقریر سُن کے مجھے اپنے سمجھانے پر ایسی ندامت ہوئی کہ میں نے شرم سے سر جھکا لیا۔ امیرالمومنین نے میری طرف متوجہ ہو کے کہا ’’جناب قاضی صاحب اس معاملہ میں اگر آپ ہماری چارہ جوئی کریں تو میں آپ کو اتنا مال و اسباب اور اتنی دولت دوں گا کہ آپ کے کل ہمعصر آپ پر حسد کریں گے‘‘۔یہ سن کے میں نے کہا “تو مشکل ہی کیا ہے جناب عیسیٰ بن جعفر نصف جاریہ آپ امیرالمومنین کے ہاتھ فروخت کر ڈالیے اور نصف امیرالمومنین پر ہبہ کر دیجیے ۔قسم تو پوری بیع یا پوری ہبہ کے لیے عارض ہے ۔نصف نصف کی صورت میں کوئی عہد آپ کے ذمہ عائد نہ ہوگا ۔یہ سنتے ہی عیسیٰ نے کہا ’’اچھا تو امام ابو ؔ یوسف صاحب آپ ہی کو گواہ کر کے میں کہتا ہوں کہ اس لونڈی کا نصف حصہ میں نے امیرالمومنین پر ہبہ کیا اور نصف حصہ امیرالمومنین کے ہاتھ پر ایک لاکھ دینار کے معاوضہ میں فروخت کر ڈالا‘‘۔رشید یہ سن کر بہت خوش ہوا۔اور میرا شکریہ ادا کرتے کرتے کچھ ساکت ہو کے بولا ’’جناب قاجی صاحب اب تو ایک اور مصیبت لاحق ہوئی ۔مجھ میں مفارقت کی طاقت نہیں ہے ۔سب کچھ ہوا۔اب یہ استبرار کا ایک مہینہ کس کے کاٹے کٹے گا‘‘ مجھ سے یہ نہ ہو ہو سکے گا۔ کوئی ایسی تدبیر بتائیے کہ اس آفت سے بھی نجات ملے۔میں تو آج ہی رات کو ہم بستر ہوا چاہوں”۔ قاضی ابو یوسف فرماتے ہیں میں نے کہا “ہاں یہ بھی ممکن ہے ۔اب یہ لونڈی نصف بوجہ ہبہ اور نصف بوجہ شراپوری آپ کی ہو چکی۔آپ اس کو آزاد کر کے اسی وقت اس کے ساتھ نکاح کر لیجئے۔ الغرض یہی ہوا۔ اور خود میں نے اس صحبت تین خطبہ نکاح پڑھا اور بیس ہزار دینار اس لونڈی کا مہر مقرر کیا رشید نے اُسی وقت مسرور کو بلوا کے بیس ہزار دینار بابتہ مہر اس لونڈی کو دیے اور حکم دیا کہ بائیس ہزار دینار اور بیس خلعت گراں بہا قاضی صاحب کو مکان میں پہنچا آؤ۔

شبرمہ بن ولید کہتا ہے کہ صبح کو میں نے قاضی ابو یوسف سے کہا اس دولت میں سے کچھ مجھے بھی دیجیے کہ اپ کے حق میں دعائے خیر کروں ۔اُنھوں نے اس کا دسواں حصہ مجھے دیا۔میں ہنوز اُن کو دعا ہی دے رہا تھا کہ ایک بڑھیا آئی اور قاضی صاحب سے کہنے لگی ’’مجھے اُس لونڈی نے بھیجا ہے اور یہ دس ہزار دینار آپ کو دیے ہیں۔ اور نہایت عجز و الحاح کے ساتھ عرض کیا ہے کہ مجھے امیرالمومنین نے بابت مہر بیس ہزار دینار دیے تھے، اُن میں سے نصف میں آپ کی نذر کرتی ہوں اور نصف اپنی حیثیت سنبھالنے کے لیے میں نے رکھ لیے ہیں‘‘ یہ پیغام سنتے ہی قاضی ابو یوسف نے بہت بگڑ کہ کہا ’’اس سے کہہ دینا کل تک تو ایک ادنیٰ اور ذلیل لونڈی تھی، میں نے تجھے کل اس مرتبہ کو پہنچا دیا کہ آج تو امیرالمومنین ہٰارون رشید کی ناز آفرین معشوقہ اور بیوی ہے اس کا صلہ یہی ہے؟ جاؤ لے جاؤ میں نہ لوں گا ۔بس میرا اسی قدر حق تھا؟‘‘ وہ بڑھیا ہاتھ جوڑ کر خوشامد کرنے لگی اور میں نے بھی بہت کچھ سمجھایا تو انھوں نے قبول کیا۔ اور اُس میں سے بھی نصف کو مجھ کو دے دیا۔

اس سے بھی زیادہ لطف کی بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ زبیدہ خاتون نے قاضی صاحب کے پاس اپنی خواص کو بھیج کے ایک مسئلہ دریافت کیا اور کہلا بھیجا کہ میں جواب بھی اپنی مرضی کے موافق چاہتی ہوں۔ قاجی صاحب نے شرعی حیلوں سے کام لے کے ویسا ہی فتویٰ دیا۔ زبیدہ نے خوش ہو کہ بطور نذرانہ کے امام صاحب کی خدمت میں ایک چاندی کا ڈبہ بھیجا جس میں تہ در تہ ڈبے ہی رکھے تھے۔ اور ہر ڈبے میں کوئی نہ کوئی روح افزا خوشبو تھی۔ اس کے علاوہ ایک جام روانہ کیا جس میں کنارے کنارے تو خوبصورتی سے درہم چنے ہوئے تھے اور بیچ میں بہت سے دینار بھرے ہوے تھے۔ یہ تحفہ جس وقت قاضی ابو یوسف کے پاس آیا تھا اُس وقت ان کی صحبت میں بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک صاحب نے مزاقاً کہا “رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے مَنْ اُھدِیَتْ لَہُ ھدیۃفَجلسَائہٗ شرکَائہ فِیھَا۔ یعنی جو کوئی کسی صحبت میں ہو اور اُس وقت اسکے پاس کوئی ہدیہ آئے تو جو لوگ شریک صحبت ہوں اُن کا بھی اُس میں حصہ ہے۔ لہذا اس میں سے کچھ یاروں کو بھی دلوائیے ۔’’قاجی صاحب نے جواب دیا ” بجا ہو۔ جناب اس حدیث کا شان نزول رہ زمانہ تھا جب تحفہ اور ہدیہ میں چھوہارے اور دودھ آیا کرتا تھا ۔آج کل جبکہ سونا چاندی تحفوں میں آیا کرتا ہے۔اس حدیث پر عمل نہیں ہو سکتا‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *