اسی طرح یہ بھی مشہور ہو کہ ایک مرتبہ رشید اور زبیدہ میں اس امر پر جھگڑا ہو کہ فالودہ اچھاہوتا ہے یا لوزینہ ۔کسی طرح فیصلہ نہ ہو سکا تو انفصال کے لیے قاضی ابو یوسف صاحب طلب کیے گئے۔ قاضی صاحب آئے تو رشید نے واقعہ بیان کیا اور پوچھا کہ آپ کے نزدیک کس کو ترجیح ہو ۔امام ابو یوسف کے سامنے یہ نہایت نازک بات تھی اِس لیے کہ ان دونوں مخاصمین میں سے ان کو کسی کی مخالفت گوارانہ تھی ۔انھوں نے کہا ’’امیرالمومنین میں یوں نہیں فیصلہ کر سکتا۔ وہ دونوں غذائیں جو باہم ترجیح کا دعویٰ کرتی ہیں سامنے لا کے رکھی جائیں اور میں ان کو چکھوں تو کہوں کہ کس کو ترجیح ہے‘‘ فوراً دونوں چیزیں سامنے لا کے رکھ دی گئیں۔ اور قاضی صاحب کھانے لگے اور آخر باکل کھا گئے ۔رشید نے کہا ’’جن دونوں میں جھگڑا تھا وہ ندارد ہو گئے مگر فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا‘‘ قاضی صاحب نے کہا ’’بات یہ ہے کہ اِن دونوں میں کچھ ایسے لطف اور ایسی دلچسپیاں ہیں کہ جس کی صورت دیکھ لیتا ہوں اُسکی مخالفت کرنے کو جی نہیں چاہتا‘‘
آہ! یہ سب باتیں مظہر ہیں اُن لغزشوں کی جن کے خوف سے امام اعظم ابو حنیفہ نے خلیفہ ابو جعفر منصور کے عہد میں عہدہ قضا سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اور بادشاہ وقت کا عتاب گوارا کر لیا تھا۔ واقعی امام ابو حنیفہ ؒ عجب دل اور عجیب برکت کے امام تھے۔ ان کی احتیاط اور اُن کے زہد و ورع کو پہنچنا بہت دشوار ہے۔ اس کے ثبوت میں خود امام ابو یوسف کا یہ واقعہ کافی ہے کہ رشید کو جب قاضی صاحب سےبہت اُنس ہو گیا۔ اور یہ اس کے دربار میں اکثر رہنے لگے تو ایک بار رشید ان سے کہنے لگا ’’قاضی صاحب آج یہیں ٹھہریئے ۔آپ کو آج ایک نئی چیز کھلائی جائے گی۔آج ایسی چیز بنوائی گئی ہے جو میرے باورچی خانے میں بھی بوجہ زیادہ تکلفات کو اتفاقاً کبھی کبھی بن جاتی ہے‘‘ قاضی صاحب نے دریافت کیا کہ ’’امیرالمومنین ایسی وہ کون چیز ہے؟‘‘۔رشید نے کہا “فالودہ جو روغن پستہ کے ساتھ ملا ملا کے کھایا جائے گا۔ یہ سنتے ہی قاضی ابو یوسف کو ہنسی آگئی۔رشید نے پوچھا تو انھوں نے اپنا تمام ابتدائی حال اور خاص وہ وقت جب اُن کی والدہ نے امام عالی مقام کی خدمت میں درشت زبانی کی تھی اور انھوں نے فرمایا تھا کہ ’’تیرا لڑکا ظاہر میں تو میرے سامنے بیٹھا درس لے رہا ہے۔مگر اصل میں وہ فالودہ کو روغن پستہ کے ساتھ ملا ملا کے کھا رہا ہے‘‘ بیان کر دیا۔یہ سن کے رشید کو حیرت ہو گئی ۔اور اس صحبت میں سب نے صدق دل سے اعتراف کر لیا کہ واقع امام ابو حنیفہ کی دل کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ اسی روز اور اسی صحبت میں رشید کو امام ابو یوسف کے اصلی حالات اور اُن کی ایام طفولیت کی سرگزشت سے اطلاع ہوئی اور اس نے نہایت تعجب سے امام ممدوح کی صورت دیکھی کہ واہ قسمت انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔ اور علم اُسے کہاں سے کہاں پہنچاتا ہے۔
باوجود ان سب باتوں کے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ امام ممدوح الشان نے کبھی طمع دنیاوی سے اصول اسلامیہ کے خلاف کیا۔ جو واقعات بیان کیے گئے ہیں ان میں صرف ان کا اجتہاد تھا اور یقیناً مفتی صاحب اعلی اللہ مقامہ اس پالسی کے لوگوں میں تھے جو دنیا کو شرع کے بے انتہا شکنجوں میں نہیں کسنا چاہتے۔ کسی نہ کسی طرح شرعی حجت پیدا کر کے وہ لوگوں پر آزادی کا دروازہ کھول دیا کرتے تھے۔ اور شاہد یہ وہ پالیسی تھی جس کی ضرورت اب تیرہ سو برس کے بعد لوگوں کو معلوم ہوتی جاتی ہے۔ مگر باحتیار ،خدا ترسی اور حق جوئی کے ان کا رتبہ بیشک اعلی درجہ کے لوگوں میں ہے۔ چنانچہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ رشید نے قاضی صاحب سے شکایت کی ’’میں نے سنا ہے کہ آپ کہتے پھرتے ہیں جو کوئی آپ کے سامنے شہادت دینے آتا ہے وہ جھوٹا اور بنایا ہوا گواہ ہوتا ہے‘‘ امام صاحب نے فرمایا ’’بیشک میں نے کہا ۔اور اب بھی کہتا ہوں ۔دنیا میں تین ہی طرح کے ادمی ہیں ۔یا تو وہ لوگ جو بدکاری میں مشہور ہیں۔ یا وہ لوگ جو اعلی درجے کے پاکباز خدا پرست اور عابد و زاہد ہیں۔یا وہ جو باطن میں بدکاو بدمعاش اور ظاہرین نیک اور صلاح کار ہیں۔ پہلے اپنی شہرت بدکاری کی وجہ سے میرے سامنے نہ آئیں گے دوسری قسم کی لوگ زہد و ورع کی وجہ کے باعث ہم سے دنیا داروں سے پرہیز کریں گے۔ تیسری قسم کے لوگ رہ گئے ۔پھر وہ ظاہر میں چاہے کتنے بڑے نیک و کار ہوں باطن میں ضرور جھوٹے اور دغاباز ہوں گے‘‘رشید نے مسکرا کے کہا ’’بیشک آپ بجا فرماتے ہیں ۔اور آپ کا انداز نہایت ہی ٹھیک ہے۔‘‘
بلکہ اس سے بھی زیادہ ثبوت اس امام عالی مقام کی خدا ترسی کا اس روایت سے ہوتا ہے جو حسن بن سماء نے بیان کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ امام ابو یوسف نے جس روز انتقال فرمایا ہے اسی روز بار بار اُن کی زبان پر یہ کلمات جاری تھے ۔ “الّٰھُم اِنَّکَ تَعْلَمُ اِنَّی لَمْ اَجْرِ فِیْ حُکمِ حَکَمْتُ فِیْہِ بَیْنَ اِثْنَیْنِ مِنْ عِبَادِکَ تَعَمُّدًا وَلَقَدْ اِجْتَھَدْ تُّ فَیْ الحُکْمِ بِمَا وا فَقَ کِتَابَکَ وَسُنَّۃَنَبِیّکَ وَکُلَّماً اَشکْلِ عَلیٰ جَعَلْتُ اَبَا حَنِیفَۃ َ بَیْنِی وَ بَیْنَکَ وَکَانَ عِنْدیْ وَاللہِ مِمَّنْ یَعْرَفُ اَمْرَکَ وَلاَیَخْرُجُ عَنِ اْلحقِّ وَ ھُوَ یَعْلَمَہٗ”۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بار الہٰی تو خوب جانتا ہے کہ تیرے دو بندوں میں میں نے دیدہ و دانستہ کبھی خلاف حق اور ناجائز فیصلہ نہیں کیا۔اور جب میں نے فیصلہ کیا تو وہی جو موافق تیری کتاب مقدس اور تیرے رسول اکرم کے فرمانے کے بموجب ہوا۔ اور مجھ پر جب کوئی مشکل آ پڑی تو میں نے اپنے اور تیرے درمیان میں ابو حنیفہ کو قرار دیا۔ اور ابو حنیفہ قسم ہے خدا کی میرے نزدیک ان لوگوں میں تھے جو تیرے حکم کو جانتے تھے اور دیدہ و دانستہ جادہ حق سے قدم باہر نہیں نکالتے تھے۔