امام ابو یوسف آخر عمر تک بغداد کے قاضی القضاۃ یا چیف جسٹس رہے۔ ایام قضا ہی میں قضاے الہٰی نے انھیں پیام مرگ سنایا۔ اور جمعرات کے روز ماہ ربیع الثانی 182ھ میں سفر آخرت کیا۔ خدا مغفرت کرے وہ ایسے شخص تھے جن کی برکتوں نے دنیا کو بہت اچھے اصول پر قائم کر دیا۔ اور ایسے اصول جو قیامت تک ان کی اعلیٰ یادگار کے طور پر باقی رہیں گے۔ ان کے صاحبزادے یوسف ان کی زندگی ہی میں جانب غربی بغداد کے قاضی مقرر ہو گئے تھے۔ جنھوں نے دس برس بعد 192ہجری میں انتقال فرمایا۔

امام ابو یوسف اول شخص ہیں جس نے فقہ حنفیہ میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ قائم کیا ۔ان کی کتاب امالی والنوادر مشہور ہے۔ جس کی حنفیہ اپنا حرز جان سمجھ کے تعظیم کریں تو زیبا ہے۔ چند اور بھی باتیں ہیں جن کی ابتدا امام مرحوم ہی کے زمانے سے شروع ہوتی۔ اسلام میں پہلے پہل قاضی القضاۃ کا لفظ بہ حیثیت خطاب انھیں کے لیے ایجاد کیا گیا تھا۔ عوام اور علما کے لباس میں ایک خاص امتیاز بھی انھیں کا پیدا کیا ہوا ہے۔ ان سے پہلے سب کی ایک ہی وضع تھی۔ انھوں نے علما کے لیے طیلسان ایجاد کیا۔ امام ممدوح کے بعض جملے آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔فرماتے ہیں صُحْبَۃُ مَنْ لَمْ یخشی الْعارَ عَا رٌ یَوْمَالقِیٰمَۃِ جس میں شرم و حیا نہ ہو اس کی صحبت پر قیامت کے روز ہر شخص کو شرم آئے گی۔ اور فرماتے ہیں “رُوْسُ الِعمِ ثَلٰثَۃٌ وّالْھَا نِعْمَۃُالاسْلَامِ الَّتِیْ لَا تَتِم ّ نِعْمَۃٌ اِلَّا بِھَا ۔وَا لثَانِیَّۃُ نِعْمَۃُاُلْعَافِیَۃِاِلَّتِیْ لَا تَطِیْبُ اْلحَیٰوۃُالابِھَا وَالثَّالِثَۃُنِعْمَۃُ الْغِنٰی اَلَّتِی لَا تَتِمُّ الْعَیْشُ اِلَّا بِھَا”۔ یعنی سب سے بڑی تین نعمتیں ہیں۔ پہلی نعمت اسلام، کہ بغیر اُس کے کوئی نعمت پوری نہیں ہو سکتی۔ دوسری نعمت صحت، کہ بغیر اس کے زندگی کا مزہ نہیں مل سکتا۔ تیسری نعمت دولت، کے بغیراُسکے کبھی پورا عیش نہیں حاصل ہو سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ابو یوسف کا یہ جملہ اُن کی زندگی اور اُن کی پالسی کا سچا مظہر ہے۔ گویا اسی کو انھوں نے اپنا اصول قرار دے لیا تھا۔

ابتداء امام مرحوم کی قبر کا پتہ نہیں معلوم تھا، مگر زہرالربیع میں لکھا ہے کہ شاہ سلیمان صفوی کے عہد 1070ھ میں روضہ مطہرہ امامین کاظمین کے قریب کسی ضرورت سے زمین کھودی گئی تو ایک قبر نمایاں ہوئی جس پر ایک پتھر لگا تھا اور اس پتھر میں قاضی ابو یوسف کا نام و نشان کندہ تھا۔ اس قبر پر ایک عمارت بنادی گئی۔ اور وہی قبر اب امام ممدوح کی خیال جاتی ہے۔ اسلامی دنیا میں یوں تو بہت بڑے بڑے صاحب ثروت و حکومت علما ہوئے ہیں مگر امام ابو یوسف مین یہ ایک ایسی بات ہے کہ اور علما میں کم نظر آئے گی یعنی باعتبار دولت وہ اپنے عصر کے تمام علما سے زیادہ صاحب ثروت تھے اور باعتبار حکومت خیال کیجیئے تو ساری دنیاے اسلام ان کے قبضہ میں تھی۔ ابو یوسف کے تر کہ میں صرف چار ہزار جامے ایسے نکلے جن میں سے ہر ایک کے بند پر ایک ایک اشرفی بندھی ہوئی تھی۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے عالم تھے جن کو خدا نے ہر طرح کامیاب کیا۔ اور واقع امام اعظم علیہ الرحمۃ کے ایسے امام کے لیے ایسے ہی شاگرد کی ضرورت تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *