حیدریم، قلندرم، مستم!
اے صاحبو!
کل رات میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ میں کس طرح اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ لیکن شاید اس جگہ کے لئے جہاں میں پیدا ہوا وطن کا لفظ نہیں استعمال کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔ دراصل قلندر جہاں بھی ڈیرے ڈال دیتا ہے وہی اس کا وطن ہے۔ سقف نیلوفری کے سائے میں پھیلی ہوئی یہ وسیع دنیا ان کی جولانگاہ ہے،جس کے مختلف حصوں کو چند سہولتوں کی خاطر الگ الگ نام دے دئے گئے ہیں۔ آج کی صحبت میں انہیں کا ذکر رہے گا۔
سب سے پہلے اس سر زمین کا حال سنیے،جسے لوگ کنجشک طلائی،کہتے ہیں۔ یہاں قدرت نے جھولیاں بھر بھر کر خزانے لٹاۓ ہیں۔ گندم کے کھتے، سونے کے ڈھیر، نیلم کی کانیں،صندل کے جنگل، زعفران کے کھیت، غرض کوئی چیز ایسی نہیں جس کی یہاں فراوانی نہ ہو۔ لیکن آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ اس پر بھی یہاں کے لوگ فاقوں مرتے ہیں اور بہتوں کو تو مرنے کے بعد کفن تک نصیب نہیں ہوتا۔ دراصل اپنے جسم کی بجائے انہیں اپنی آتما کی زیادہ فکر ہے اور وہ خود کو ساری دنیا کی مصیبتوں سے مکت کر لینا چاہتے ہیں۔
جن دنوں میں اس ملک کی حدود میں داخل ہوا وہاں ایک نیم مستور انسان کا بہت چرچا تھا۔ اس کا نام تو میرے ذہن سے اتر گیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب تھا فوق البشر۔۔۔۔۔۔۔ یہ شخص ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا اور اس نے اپنے نفس امارہ کو کچھ اس طرح مارا تھا کہ اپنی بیوی کو بھی ماں کہنے لگا تھا۔ اس کے بہت سے ہم وطن اسے پیغمبر سمجھتے تھے۔ اس کی قوت ارادی اور روحانیت کا یہ عالم تھا کہ دنوں اناج کو نی چھوتا۔ ایک بار اس کی حاکم وقت سے چل گئی اور اسے زندان میں ڈال دیا گیا اس پر اس نے اعلان کر دیا کہ وہ بطور احتجاج تادم آخریں برت رکھے گا اور اناج کو نہ چھوۓ گا۔ اور اس دھمکی کو سچ کر دکھایا۔ بیس روز تک وہ صرف انگوروں اور سنگتروں کے رس پر جیتا رہا۔ چناچہ حاکم نے مجبور ہو کر اسے رہا کر دیا۔ لیکن فوق البشر اپنی ہٹ کا پورا تھا اس نے رہائی کے بعد بھی حکومت کی مخالفت جاری رکھی۔ ایک دن جب اور کچھ بھی نہ سوجھا تو سوت کا سکہ ہی چلا دیا۔ اس کے مریدوں کے گھروں میں چرغے کی گھمر گھمر سنائی دینے لگی۔ اور میں نے دیکھا کہ لوگ باگ سوت کی اونٹیاں لیے بازاروں میں گھوم رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے ایک راہگیر سے پوچھا کہ بھائی یہ کیا مسخرہ پن ہے۔ جواب ملا میاں اس میں کوئی سیاسی مصلحت پوشیدہ ہے۔ میں نے کہا میں بھی تو جانوں۔ اس پر راہگیر نے کہا تم اپنی راہ لو، تمہیں سیاست سے کیا کام۔ اب سوچتا ہوں کہ شاید وہ سچ ہی کہہ رہا تھا۔ قلندروں کو سیاست سے کیا کام، وہ تو بس یہی جانتے ہیں کہ جو کام کرنا ہو کر گزرو۔ اور اس وقت میرے پیش نظر صرف ایک کام تھا۔۔۔۔۔۔ سیر۔ قیام سے میرا جی الجھتا ہے۔ چناچہ چلتا چلتا ایک دن میں ایک ایسے علاقے میں پہنچا جو دو ملکوں کی سرحد ہے۔ یہاں کے لوگوں کو میں نے دیوانگی کی حد تک مہماں نواز پایا۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ فقیر کو اپنے یہاں مہمان ٹھہرانے کے سلسلے میں دو چچیرے بھائی ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر اتر آئے۔ دونوں مجھے مسجد میں ملے تھے۔ اور ان میں سے ہر ایک اس بات پر مصر تھا کہ میں اس کی دعوت قبول کروں۔ میں نے جب دیکھا کہ بات بڑھ رہی ہے تو اسی میں خیریت جانی کہ دونوں میں سے کسی کے بھی ہاں نہ جاؤں اور مسجد ہی میں پڑا رہوں۔ خون خرابہ تو نہ ہو گا۔ لیکن شاید ان لوگوں کو مہمانوں کی خوشبو آ جاتی ہے۔ دو میزبان ابھی گئے ہی تھے کہ دس اور موجود۔ آخر کار بہت لے دے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ قرعہ اندازہ کی جائے۔ اور جتنے دن میں وہاں ٹھہروں باری باری سبھوں کے یہاں کھانا کھاؤں۔ بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا۔ لیکن وہاں ایک اور مصیبت آئی۔ کہ بھوک نہ ہو تو بھی کھاؤ اور ٹھونس ٹھونس کر کھاؤ ورنہ میزبان ناراض۔ ان کا خلوص میرے لیے وبال جان بن گیا۔ اور میرا ہاضمہ کچھ ایسا بگڑا کہ دنوں صاحب فراش رہنا پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس علاقے کے لوگوں میں کچھ برائیاں بھی دیکھنے میں آئیں۔ چند سیمیں سکوں کے عوض انہیں خریدا جاسکتا ہے اور ایک برہ کی خاطر یہ کسی انسان کا خون بہالے تک کو تیار ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ لوگ اس خوفناک علت غیرفطری میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے قوم لوط پر عزاب الہی نازل ہوا۔
اس خطرناک خطہ کے جنوب میں ایک اور علاقہ ہے جس کے باشندوں کی یک رخی شبیہ مثل کلہاڑے کی ہوتی ہے۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ لوگ ان غداروں کی نسل سے ہیں جنہوں نے ایک جواں سال فاتح کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا تھا۔۔۔ اپنے بزرگوں کی میراث ان میں ابھی تک چلی آتی ہے۔ اور آج بھی وہ اسی بے تکلفی اور بے حجابی سے ضمیر فروشی کرتے ہیں۔۔۔ یہ علاقہ ٹھیٹ قسم کی طوائف الملوکی کا آئینہ دار ہے۔ جہالت یہاں کی خصوصیت امتیازی ہے۔ یہاں کے بڑے بڑے زمینداروں کو میں نے دیکھا ہے لیکن کریما بہ بخشا۔۔۔ تک نہیں جانتے۔شاید وہ ہمیشہ کے لیے حرص و ہوا کے کمندوں میں اسیر رہنا چاہتے ہیں۔ گھوڑ سواری، نیزہ بازی، کتوں اور شکروں سے شکار اور اپنے کارندوں کی بہو بیٹیوں کی عزت پر ڈاکے ڈالنا ان لوگوں کے مشاغل ہیں۔