بلندی اور پستی کا یہ تضاد دیکھ کرمجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں خدا کی خدائی سے منحرف ہو رہا ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اور حیال میرے ذہن میں آیا۔ کوئی میرے کانوں میں کہہ رہا تھا۔۔۔’’قلندر تجھے کیا۔ جہاں’تیرا‘ ہے یا ’اس‘ کا۔ اس کے بنانے والے کو آپ ہی اس کی فکر ہو گی۔ تو کیوں مفت میں دبلا ہوا جاتا ہے۔ تیرے لیے تو بس یہی کافی ہونا چاہیے کہ تو ہے اور بس۔ اگرکسی اور کو زندگی سے شکایت ہے تو اس کے بارے میں خود سوچے۔۔۔”
ان ہی خیالات میں مگن نہ جانے میں کہاں سے کہاں نکل گیا۔ دفعتا پاؤں کسی نرم چیز کے ساتھ مس ہوئے۔ جھک کر دیکھا تو ایک نومولود بچے کی لاش تھی۔ ہاتھوں سے زمین کھود کر اسے دفن کیا اور اس کی موت کے بارے میں قیاس آرائیاں کرتے ہوا آگے بڑھا۔ اتنے میں مشرقی افق پر ایک ہلکی سی روشنی نمودار ہوئی اور دور کہیں دھندلکوں کے دامن سے ناقوس اور اذان کی آوازیں ابھریں۔ یہ آوازیں کچھ اس خوبصورتی سے ایک دوسرے میں تحلیل ہو رہی تھیں جیسے بندوں کی بپتا دیکھ کر خداؤں کی آپس میں صلح ہو گئی ہو۔ اس وقت میرے جی میں آئی کہ ماتھے پر چندن کا ٹیکہ لگا کر کسی مندر میں نماز ادا کروں۔ لیکن اس خوبصورت خواہش کا وہی حشرہوا جو اکثر خواہشوں کا ہوتا ہے۔ ایسی آرزوئیں پوری ہونے کے لیے نہیں ہوتیں۔ اور میں اس حسین خیال سے ایک قسم کا ذہنی لطف اٹھا کر ہی مطمئن ہو گیا۔۔۔ اس مسرت کا اثر آج تک قائم ہے۔ اس بات کو ایک عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج بھی رات کے سناٹے میں جب میں اپنے تجربات کا جائزہ لیتا ہوں تو امید کی ایک ہلکی سی کرن میرے ذہن میں جاگ اٹھتی ہے۔ اور مجھے یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ کسی روز میری وہ حسین خواہش پوری ہو کر رہے گی۔ اور اور انسانیت کے درمیان نفرت اور نفاق کی جو کھائیاں نظر آرہی ہیں ایک روز پٹ جاٰئیں گی۔
اور اے یاراں! اب میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔ میرا کشکول میں کہانیاں تو بہت ہیں۔۔۔ آپ بیتیاں بھی اور جگ بیتیاں بھی، اگر چاہوں چاہوں تو ساری عمر داستان گاٰئی کرتا رہوں۔ لیکن وہ دیکھئے، مشرق افق پر ایک پراسرار روشنی آ رہی ہے۔ اور وہاں دودھیا گنبدوں اور سنہرے کلسوں کے پیچھے سے ابھی ایک دمکتا ہوا کرہ نمودار ہوگا جس سے سارا عالم بقعہ عالم نور بن جائے گا۔ ایسے میں قلندر بیکار نہیں بیٹھ سکتا۔ کوئی نامعلوم منزل اسے اپنی طرف بلا رہی ہے، اسے جانا ہے۔ قسمت میں ہوا توپھر ملاقات ہو گی۔ یار زندہ صحبت باقی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیدریم، قلندرم، مستم۔۔۔