مدت ہوئی کریم حیدر نامی ایک لڑکا پوٹھوار کے قصباتی اسکول میں پڑھتا تھا۔ ایک روز اسکول جاتے ہوئے وہ کچے دیہی راستے میں آنے والے مٹی کے ڈلوں کو قدم قدم پر ٹھوکر مار رہا تھا۔ گھوڑے پر سوار ایک انگریز ادھر سے گزرا۔ اس نے گھوڑا روک کر لڑکے کو ایک نصیحت کی.’’ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ جذبے کو اظہار کے لیے بہترین موقع فراہم کرے۔ ٹھوکر مارنے کو جی چاہے تو جاؤ فٹ بال کھیلو‘‘۔ وہ لڑکا پڑھنے اور کھیلنے کے لیے ایم-اے-او کالج میں داخل ہوا. کالج میں فٹ بال کا کپتان بنا۔ طلبا کی یونین کا صدر منتخب ہوا۔ امتحان میں اول آیا۔ آغا خانی اسکالرشپ ملا. کیمبرج سے ڈاکٹریٹ ملی اور آخر کار وہ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ معاشیات کا پروفیسر اور صدر ہوا۔
ڈاکٹر ایل-کے حیدر کو جب میں نے پہلی بار غور سے دیکھا تو وہ بڑے بارعب نظر آئے۔ یہ شروع کے دنوں کی بات ہے اور اب اس کی وجہ بھی سمجھ آتی ہے۔ میں لڑکپن کی سرحد کے پار زمین بے یاری کا مسافر تھا۔ جسم دبلا ، نرخرہ بے قابو ، آواز بے سری اور قد لانبا۔ لمبے ہونے کی رفتار یہ تھی کہ ہر تین چار ماہ کے بعد ٹخنے پائینچوں سے جھانکنے لگتے۔ ادھر ایک عمر رسیدہ سنجیدہ اور جہاں دیدہ آدمی۔ ایک فربہ ، کم گو اور بھاری بھرکم شخصیت۔ یورپ میں پڑھا ہوا اور انگریز حکومت کا مانا ہوا ماہر معاشیات ہیرس ٹوئیڈ کا چار خانہ کوٹ اور برجس نما پلس فلور پہننے والا شخص جو عید کے روز شلوار قمیص اور مشہدی کلاه و دستار میں نظر آتا۔ ایک سہ پہر گالف اسٹک لے کر بال اٹھانے والے پیش خدمتی کے ساتھ پیدل چلنے والا اور دوسری سہ پہر جرمن میم کے ہمراہ گھڑ سواری کرنے والا صاحب۔.بہت سے لوگ جنھیں ڈاکٹر ایل-کے حیدر کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع نہیں ملا.وہ انھیں نرا صاحب سمجھتے تھے۔
ڈاکٹر ایل کے حیدر کی کوٹھی میں خاموشی چھائی رہتی تھی۔ ڈاکٹرحیدر اور اسٹیفنی حیدر دونوں خاموش طبع اور کم آمیز تھے۔ جملہ اولاد ایک بچی پر مشتمل تھی جسے پانچ سال کی عمر میں انھوں نے شملہ بھیج دیا اور دس سال کی عمر میں انگلستان۔ شملہ کانونٹ میں داخل ہونے کے بعد بچی کا تعلق ہر اس چیز سے ٹوٹ گیا جو اسے باپ کی میراث میں مل سکتی۔ زبان ، ملک، روایات اور مذہب۔ البتہ شہسواری میں اس نے جلد ہی اتنا نام پیدا کیا کہ ایک ہاتھ میں کپ لیے اور دوسرے سے لگام تھامے اس کی تصویر ایک انگریزی روزنامے میں چھپی۔ پھر اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور وہ سرپٹ لندن پہنچ گیا۔ادھر ڈاکٹر حیدر کی کوٹھی میں خاموشی اور گہری ہو گئی۔ یہاں تک کہ نئے طلبا انھیں بے اولاد شمار کرتے اور ان کی الگ تھلگ اور بے تعلق زندگی کا سرا اس محرومی سے جوڑ دیتے۔ اپنی بیٹی ڈوروتھی اگینس فاطمہ حیدر کو انگلستان بھیجتے وقت والدین کا خیال تھا کہ وہ اسے ہر سال بلایا کریں گے یا اس کے پاس جایا کریں گے۔ حالات پر کب کسی نے اپنی مرضی کے مطابق قابو پایا ہے۔ ولایت بھیجنے کے بعد وہ کوسوں دور بچی سے سالوں دور ہوتے چلے گئے۔دوسری عالمی جنگ ان کے درمیان حائل ہو گئی۔
ادھر ڈاکٹر حیدر کی خدمات حکومت نے زرعی کمیشن کے لیے حاصل کرلیں۔ لارڈ لنلتھگو اس کمیشن کے صدر تھے۔ ان سے ڈاکٹر صاحب کے تعلقات استوار ہوگئے۔ جب کمیشن کا کام ختم ہوا تو لارڈ لنلتھگو وائسرائے مقرر ہوئے۔خیال تھا کہ اب ڈاکٹر صاحب کسی بڑے عہدے پر مامور ہو جائیں گے لیکن ایک دن وہ خاموشی اور خوشی سے رئیس شعبہ معاشیات مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے علی گڑھ واپس آگئے۔ ظرف اتنا بڑا کہ نئی دلی اس میں سما گئی تو چھلکا نہیں اور علی گڑھ کی مدرسی ملی توبھی شکر سے لبریز رہا۔
مسلم یونیورسٹی میں ڈاکٹر ایل-کے حیدر کو رہائیش کے لیے ایک پھوس والا بنگلہ ملا۔ سامنے لان تھا ، شمال میں شاگرد پیشہ اور باقی دو طرف جھاڑ جھنکاڑ۔ بنگلہ اور شاگرد پیشہ (جو ان دنوں خاصی کالونی ہوا کرتا تھا) کے درمیان گھنے درختوں کے سایے میں گھوڑوں کے لیے چوبی کٹہرے بنے ہوئے تھے۔ تھوڑے فاصلے پر ایک پکا اصطبل تھا۔
گرمیوں میں جب بہت سے ساتھی پہاڑوں کا رخ کرتے ڈاکٹر ایل- کے حیدر ہاتھ کا پنکھا جھلا کرتے اور کھدر کا موٹا کرتا پہن لیتے کہ وہ پسینہ چوس لیتا ہے۔ جو لوگ پہاڑ پر نہ جاتے وہ گھر کوخس خانہ بنا لیتے۔ یہ اہتمام بھی ڈاکٹر صاحب کو پسند نہ تھا۔ البتہ اصطبل میں برف کی سلیں باقاعدگی سے لگائی جاتیں تاکہ بے زبان جانور کو تکلیف نہ ہو۔ سردیوں میں اکثر دیکھنے میں آتا کہ اصطبل سے ذرا سے فاصلے پر برگد تلے لکڑی کے دوچار کڑے پڑے ہوتے۔ ڈاکٹر.ایل-کے حیدر صبح سویرے کلہاڑی لے کر لکڑی پھاڑنے کی ورزش کیا کرتے۔ چھٹیاں ملازموں کے حصے میں آتیں تا کہ وہ آگ تاپ سکیں اور چھولھا گرم کرسکیں۔ صاحب بہادر کے حصے میں صرف وہ صحت مند خوشی آتی جو مسامات سے پسینے کی صورت پھوٹتی ہے۔ ڈاکٹر ایل۔کے حیدر ایک نیک دل اور سادہ لکڑ ہارے تھے۔
حیدر صاحب کے یہاں جو کھانا دونوں میاں بیوی کے لیے پکایا جاتا وہ ان تمام ملازمین میں تقسیم ہوتا جو تنخواہ مع خوراک پر ملازم تھے۔ ان کا سفید ریش باتمیز خانساماں ہمیشہ دھوبی کے دھلے کلف لگے اجلے کپڑے پہنا کرتا۔ باورچی خانے کا بیشتر کام اس کے نائب کے سپرد تھا۔وہ ہنڈیا کو دم دیتا اور فارغ ہو کر بٹلر بن جاتا۔ گھر کی چابیاں بھی اسی کے پاس رہتیں .حساب بھی وہی رکھتا۔ دوسرے ملازمین پر بھی اسے اختیار حاصل تھا۔ عہد مغلیہ کے خان ساماں کی ایک گھریلو صورت۔حیدر صاحب نوکر کو آواز دینے کے خلاف تھے۔ وہ خود وقت پر حاضر ہوتا یا اس وقت تک صاحب صبر سے کام لیتے اور انتظار کھینچت۔.مسز اسٹیفنی حیدر البتہ ملازم کو بلانے کے لیے آہستہ آہستہ دوبار پکارا کرتیں۔ خدمت گار ‘خدمت گار- مسز حیدر جرمنی کے ایک رئیس گھرانے کی شایستہ خاتون تھیں۔